*استاذ استاذ ہوتا ہے شاگرد کو اپنی اوقات میں رہنے ہی میں فائدہ ہے*۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ ایک موقع پر ایسے بیمار ہوئے کہ لوگوں نے سمجھا اب وصال ہوجائے گا تب آپ کے پاس آپ کے استاذ محترم امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور فرمایا :
"میں تمھیں اپنے بعد اپنی مسند کا مالک بناتا ہوں، اللہ نہ کرے کہ تم فوت ہوجاؤ، اگر تم فوت ہوگئے تو لوگ علم سے محروم ہوجائیں گے"۔
پھر اللہ پاک نے امام ابو یوسف کو صحت عطا فرمائی۔
لوگوں نے آپ کو امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان یاد دلایا تو آپ کا نفس پھول گیا (یعنی تکبُّر آگیا) اور آپ نے اپنی ایک الگ مجلسِ فقہ قائم کرلی جب امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اطلاع ہوئی تو آپ کو رنج و قلق ہوا اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے ایک خاص مصاحب سے فرمایا.......جاؤ! اور یعقوب (امام ابویوسف) سے ایک سوال کرو کہ
" ایک شخص نے دھوبی کو ایک درہم کے بدلے کپڑے دھونے کے لئے دیئے لیکن جب وہ کپڑے لینے گیا تو دھوبی نے کہا آپ کا میرے پاس کوئی کپڑا نہیں اور کپڑا دینے سے انکار کردیا مالک لوٹ آیا بعد میں دھوبی نے اس کے کپڑے واپس کر دیئے۔ اب چونکہ وہ کپڑے دھلے ہوئے تھے تو کیا دھوبی اس کی اجرت لے سکتا ہے؟ اگر یعقوب کہے کہ اجرت لے سکتا ہے تو کہنا کہ "آپ نے خطا کی" اگر وہ کہے نہیں لے سکتا تب بھی کہنا کہ " آپ نے خطا کی"۔
وہ حاضر ہوا اور اسی ترکیب سے امام ابو یوسف سے سوال کئے، بالآخر امام ابو یوسف رحمہ اللہ جواب دینے سے عاجز ہوئے، اور سراج الامہ، سلطان المحدثین، سید الفقہاء امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی خدمت میں خود حاضر ہوکر یہی "مسئلہ" عرض کیا۔
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:
اگر اس دھوبی نے غصب کے بعد کپڑے دھوئے تو اجرت نہیں کیوں کہ اس نے اپنے لئے دھوئے اور اگر غصب سے پہلے کپڑے دھوئے تو اجرت ملے گی کیوں کہ اس نے کپڑوں کے مالک کے واسطے دھوئے۔
پھر فرمایا : "جو شخص یہ گمان کرے کہ وہ علم سے مستغنی ہوگیا ہے تو وہ اپنے آپ پر روئے"۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ بےحد نادم اور معافی کے خواستگار ہوئے۔
(اخبار ابی حنیفہ، ص: 62)
مشورہ : آپ علمی و عملی میدان میں کتنا ہی آگے نکل جائیں کبھی اپنے استاذ، شیخ اور معلّم کا دامن نہ چھوڑیں کہ ایسا کرنا بعض اوقات علم سے محرومی اور ناشکری کا باعث بنتا ہے، کیونکہ آپ کی ترقی کی اصل وجہ یہی استاذ و شیخ ہیں
Copy