انصار کا ایثار

علی ہلال

کل سے جے یو آئی کی رضاکار تنظیم انصار الاسلام عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔
دس مارچ کی شام کو وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ لاجز واقعہ کے بعد سے انصار زیر بحث ہے ۔
انصار کوئی باقاعدہ تربیت یافتہ ملیشیا فورس نہیں ہے ۔بلکہ جماعتی رضاکار نوجوانوں کا ایک منتظم گروپ ہے جو تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر جمع ہوکر انتظامات سنبھالتے ہیں ۔
اس گروپ کے کارکن نہ کسی فرقہ وارانہ تصادم پر یقین رکھتے ہیں اور ناہی لسانی وفروعی تنازعات میں خود کو ملوث ہونے دیتے ہیں ۔

یہ غالبا 2005 کی بات ہے ۔ جمعیت علما ئے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن خانپور کے ایک مدرسے کے سالانہ پروگرام میں شرکت کے لئے آرہے تھے ۔ رحیم یار خان ائیرپورٹ پر ان کے استقبالی جلوس کے انتظامات انصار کے سپرد تھے ۔

ہمارے ایک جگری یار ، زیڈ_دین_ کاکڑ انصاری دستے کے مسوول تھے ۔ بڑی بڑی گھنی مونچیں رکھنے والے چھ فٹ کے حامل یہ چنار قد جوان اپنے بے باک ڈائیلاگ کے باعث طلبہ میں مشہور تھے ۔

دستے نے مولانا کی سیکورٹی سنبھال کر انہیں رحیم یارخان ائیرپورٹ سے خانپور پہنچایا ۔وہاں ایک دن اور رات قیام کے دوران مسلسل جاگ کر سیکورٹی اورپہرے کی ذمہ داریاں نبھائی مگر مولانا کی مصروفیات کے باعث انصار دستے کے کسی فرد کو مولانا سے ہاتھ ملانا یا بات چیت کرنا نصیب نہ ہوا ۔

دوسرے دن مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے مولانا جب عصر کو رحیم یارخان ائیرپورٹ پہنچے تو لائونج میں جلدی جلدی الوداعیوں سے مصافحہ کرکے نکلنے کی کوشش کرنے لگے
ابھی یہ سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ دستے کے مسوئول زیڈ دین کاکڑ نے آگے بڑھ کر مولانا کے ہاتھ تھام لئے ۔

ایک گونہ خاموش ہوکر اپنے اوپری ہونٹ کو دانتوں تلے دبایا اور پھر مولانا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے کہ
: مولانا۔! کیا ہم مسلمان نہیں ۔؟
مولانا حیران ہوئے اورپھر اپنی فطری ذکاوت کو بروئے کار لاکر سنجیدہ ہوگئے ۔
قبل اس سے کہ مولانا کچھ کہتے ۔ زیڈ کاکڑ نے اپنے محبت بھرے مگر جارحانہ انداز میں بولتے چلے گئے۔ ’’ہم دو دن سے آپ کے آگے پیچھے جلوس کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں ۔ دوڑ رہے ہیں ۔ کھانا کھائے اورپانی پئے بغیر انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں ۔اس جم غفیر میں دھکے کھارہے ہیں ‘‘۔

ایک دنیا آپ سے مل رہی ہے ۔ بات چیت ہورہی ہے ۔ لطیفے ،سیاسی تبصرے ،علمی چٹکلوں سے سب محظوظ ہورہے ہیں مگر انصاری دستہ مصافحہ تک نہیں کرسکتا ۔ اب آپ طیارے کی جانب بڑھ رہے ہیں ، تو یہ بتائیں کہ ہمارا گناہ کیا ہے جو آپ سے مصافحہ کا حق بھی نہیں رکھتے ۔

یہ سن کر مولانا نے ایک قہقہ مارا ۔ ساتھ میں کھڑے سیکورٹی افسران بھی ہنسے ۔ شکوہ سننے کے بعد کاکڑ کا ہاتھ دبایا اور انصار دستے کے تمام رضاکاروں کو پاس آنے کی ہدایت کرتے ہوئے سب سے فرداً فرداً گلے ملنا شروع کئے ۔ معانقہ ہوا۔ انصار دستے نے اپنی آخری ذمہ داری اداکرتے ہوئے مولانا کو سلامی پیش کردی ۔

اس نوعیت کے ایک نہیں متعدد واقعات ہیں ۔جن سے انصار دستے کی جرات ،نڈرپن، قربانی ،ایثار اور حق گوئی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔