مری کنٹونمنٹ ہے اسے کلیئر رکھنا فوج کی ذمہ داری ہے مگر ہماری فوج تو واقعے کا سانحہ بننے کا انتظار کرتی ہے جب تک نوبت اس اعلان تک نہ پہنچ جائے کہ "پاک فوج کو طلب کرلیا گیا" یہ حرکت میں نہیں آتی اس کے ذریعے قوم کو دو باتیں باور کرائی جاتی ہیں ایک یہ کہ دیکھا ہم ہی آخری حل ہیں اور دوسری یہ کہ ہم طلب کئے بغیر نہیں آتے حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طلب کئے بغیر یہ صرف وزیر اعظم ہاؤس اور ٹی وی سٹیشن ہی پہنچتی ہے اس کے علاوہ یہ ہر جگہ طلب کئے جانے کا انتظار فرماتی ہے.
سورج پرستوں کے ملک سبا کی ملکہ بلقیس جب سلیمان علیہ السلام کے دربار میں آئی تو پانی کے تالاب پر لگا شیشہ اتنا شفاف تھا کہ بلقیس نے پائنچے اوپر کر لئے. تب سلیمان علیہ السلام نے کہا پائنچے نیچے کردو. پانی پر تو شیشہ ہے. دھوکہ نہ کھاو جیسے تم سورج سے دھوکا کھا کر سجدہ ریز ہوگئے.
ایکوا ڈور کے صوبہ کنار میں اینگا پرکا گاوں میں "انکا" تہذیب کا آتش فشاں چٹانی پتھروں سے بنا سورج کا مندر آج بھی کھڑا ہے. اس کا فن تعمیر اس دور کے ہنر کا عکاس ہے. چھت پر بنی چوبرجی میں بنے طاقچے کچھ ایسی ترتیب سے ہیں کہ سورج سردی کا ہو یا گرمی کا ان تین طاقچوں میں کسی ایک سے اس کی روشنی چھن چھن کرتی نیچے مندر میں آتی ہے.
اسی مندر سے نیچے غریبوں کی بستی کے آثار میں چاند کا حساب رکھنے والا وہ پتھر بھی ہے. جس کے سوراخوں میں پانی ڈال کر انکا تہذیب اس میں چاند کا عکس دیکھ کر بتاتی کس فصل کے بونے اور کاٹنے کا وقت ہوگیا ہے. علم انسانی بقا ہے. ہم اسباب کی دُنیا میں آج جہاں کھڑے ہیں یہ ہماری علمی تاریخ ہے.
لیکن جب یہی علم ہمارے لئے دھوکا بن جائے تب ہم عالم اسباب سے اپنے تعلق کا حساب غلط کر لیتے ہیں. ہم اسباب کو ہی سب کچھ سمجھ کر پائنچے اوپر کر لیتے ہیں. اللہ رب العزت کا وہ نادیدہ تعلق جو ہمیں اس عالم سے جوڑتا ہے ہمیں نظر نہیں آتا. علم کی معراج اسی لئے بندے کی اپنے رب کی بندگی ہے.
جب ہم مسبب الاسباب ذات کو پالیتے ہیں تو اسباب آسان ہو جاتے ہیں. زندگی اپنا مقصد و مقصود پا لیتی ہے.
ریاض علی خٹک
تحریر.. ریاض علی خٹک
افریقی سوانا میں گھاس چرتے دیوہیکل بھینسے بظاہر شانت لگتے ہیں لیکن اگر یہ غصے میں آجائیں تو شیر کو بھی اپنے سینگوں پر اٹھالیتے ہیں. عام طور پر ان کو غصہ آتا بھی پلک جھپکتے ہے. لیکن اسی بھاری بھرکم مخلوق پر چھوٹی چھوٹی لال پیلی چونچ والی چڑیاں سوار رہتی ہیں. ان سے ان کی بہت دوستی ہوتی ہے.
یہ چڑیاں ان کے چھدرے بالوں میں چھپی جونکیں اور دوسرے حشرات الارض کھاتی ہیں. جسم کے ان حصوں پر تکلیف دیتے ان کیڑے مکوڑوں کے سامنے یہ عظیم الحبثہ جانور بلکل لاچار ہوتا ہے. یہ چڑیاں اس چھوٹی تکلیف کو کھا کر اسے بڑی تکلیف بننے نہیں دیتیں اور ان کو سکون ملتا ہے.
لیکن یہ چڑیاں ایک کام اور بھی کرتی ہیں. بھینسے کے مقابلے میں ان کے دیکھنے سننے کی طاقت بہت تیز ہوتی ہے. خطرہ جب آس پاس چھپ کر منڈلا رہا ہو تو یہ فوری بھانپ کر شور مچاتی اڑنے لگتی ہیں. اور بھینسا ہوشیار ہو جاتا ہے.
آپ جتنے بڑے ہوتے جاتے ہیں قدرت بہت سے چھوٹے چھوٹے کمزور کردار آپ کے ساتھ منسلک کر دیتی ہے. ہم اکثر اس کو بوجھ سمجھ لیتے ہیں. لیکن یہ بوجھ نہیں ہوتا. یہ قدرت کی حفاظتی شیلڈ ہوتی ہے. وہ انشورنس جو کہتی ہے تم میرے کمزور کو کھلاو میں تمہاری عزت و طاقت برقرار رکھوں گا. جو قدرت کا یہ کلیہ سمجھ لیتا ہے اس کی ترقی پھیلنے لگتی ہے.
ریاض علی خٹک