کچھ دنوں سے میرے اندر ایک خوشگوار تبدیلی آئی ہے، ایک عجیب سی مسرت کا احساس میرے رگ و پے میں دوڑنے لگا ہے ۔
تنہائی ،کوفت اور بوریت کا جو احساس میرے دل و دماغ پر اول چھایا رہتا تھا، وہ دفعتا غائب ہو گیا ہے اور ایک سرخوشی کی مجھے محسوس ہونے لگی ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ایسا لگنے لگا ہے کہ خدا کی ساری کائنات میرے اندر ساگئی ہے۔ یہ درخت، آسمان، پھول پودے اور سارے انسان میرے وجود میں اتر گئے ہیں اور میں ان سب کا امین ہو گیا ہوں ۔
میری تنہائی اندر اندر میں دم توڑ گئی ہے ۔ اور میں پھیلتا جا رہا ہوں ، اور کائنات کی وسعتیں میرے اندر سائی جارہی ہیں ۔
تنگی اور محدودیت میرے اندر سے ختم ہوگئی ہے اور اب انفس و آفاق کو سمانے کی وسعت میری وجود میں پیدا ہوگئی ہے ۔
اب میں بہت مسرور رہنے لگا ہوں ۔ بات بات پر قہقہے لگا تا ہوں ۔ میری تلخی ، چڑ چڑا پن اور غصہ سب دور ہو گئے ہیں ۔
البتہ میری بیوی جب بھی اسے فرصت ملتی ہے میری طرف وحشت زدہ سی نظروں سے دیکھنے لگی ہے۔
میرے بچے مجھ سے ہراساں رہنے لگے ہیں اور مجھے اپنی بیوی کی دہشت اور بچوں کی سراسیمگی سمجھ میں نہیں آتی ۔
وہ سب ایسے کیوں ہو گئے ہیں ۔
کیا ان سے میری خوشی برداشت نہیں ہوتی؟
میرا شاداں و فرحاں رہنا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا؟
یہ باتیں میرے لیے نا قابل فہم ہیں ۔ لیکن میں ان باتوں کی پروا نہیں کرتا ۔ میں رات کو اپنی چھت پہ کھلے آسمان کے نیچے لیٹ جا تا ہوں اور تاروں بھرے آسمان کو تکتا رہتا ہوں۔ اس وقت میرے ہونٹوں پر ایک پر مسرت مسکراہٹ ہوتی ہے۔ لگتا ہے تاروں بھرا آسمان میرے سینے میں سما گیا ہے اور میں سرخوشی کے احساس سے دہرا ہوا جار ہا ہوں ۔
کبھی میں اپنے لان میں پھولوں ، ہوا میں مجھومتے ہوئے پھولوں کے پاس اکڑوں بیٹھ جانا ہوں اور انہیں گھورتا رہتا ہوں۔ مجھے احساس ہوتا ہے جیسے میرے دل کے باغ میں یہ پھول اُگے ہوئے ہیں ۔
کاش کوئی جان سکتا کہ دنیا جہان کی کتنی خوشیاں مجھے حاصل ہوگئی ہیں ۔
بچپن گزرے کتنے ماہ و سال گزرے کہ اب یہ کائنات مجھے پھر سے مل گئی ہے۔
میری بچیاں مجھ سے اکثر پوچھتی ہیں: پاپا! آپ تنہائی میں ہنستے کیوں رہتے ہیں؟‘‘
میں کہتا ہوں: ” مجھے جو خوشی میسر ہے وہ تم لوگوں کو بھلا کہاں مل سکتی ہے ۔ کیا میرا ہنسنا تم لوگوں کو برا لگتا ہے ۔
میری بڑی بیٹی کہتی ہے: ’’ نہیں پاپا! ہنسنا تو اچھی بات ہے ۔ لیکن اکیلے بھی کوئی ہنستا ہے؟‘‘
میں جوابا کہتا ہوں: ’’ مگر میں اکیلا کہاں ہوں؟ پوری کائنات میرے ساتھ ہے ۔“
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں اور پھر مایوسی سے اور غم سے سر جھکا لیتی ہیں ۔
ہاں غم ہے۔ کیونکہ شاید انہیں پاپا کے ذہنی توازن پر کچھ شبہ ہوتا ہو۔ میں سب باتیں سمجھتا ہوں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ مجھ پر وہ حقیقتیں منکشف ہوئی ہیں جو کسی اور پر نہیں ہوئیں ۔ میں چیزوں کو جس طرح اب دیکھتا ہوں وہ دیکھنا کسی اور کو نصیب ہو جاۓ تو اس کی حالت بھی میری جیسی ہی ہو جاۓ ۔
مجھ پر جو حقیقتیں منکشف ہوئی ہیں، وہ میں آپ کو نہیں بتاؤں گا کیونکہ آپ ان کی تاب نہیں لائیں گے اور میں نے آپ کو بتا دیا تو پھر آپ کی بیوی بھی آپ کو دہشت زدہ نگاہوں سے دیکھے گی اور آپ کی بچیاں بھی آپ کو دیکھ کر شدت غم سے سر جھکالیں گی اور سب سے بڑھ کر اس کے لیے آپ کو اپنے حافظے کی قربانی دینی ہوگی ۔ کیونکہ یادواشت گم کیے بغیر آپ اس کائنات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے!