مختصر: آئی آیس آئی اور سیاست
یادش بخیر، میں امریکی ایمبیسی میں سیاسی امور کے شعبہ میں کام کرتا تھا۔
دیہاتی طبعیت تو اب بھی ہے، مگر اس کی شدت بہت کم ہو چکی ہے۔ اب میں کچا پکا شہری مزاج بن چکا ہوں۔ ان دنوں مگر دیہاتی طبع ٹھاٹھیں مارتی تھی اور اسلام آباد کے عین مزاج کے مطابق، کرسی کی یاریوں کو خادم، ذاتی دوستیوں کے برابر سمجھتا تھا۔ پھر کچھ معاشی و معاشرتی کامپلیکسز بھی تھے کہ گاؤں سے اک غریب گھر سے اٹھ کر شہر میں آن بسا ہوں تو اپنی کوئی شناخت، پہچان وغیرہ تخلیق کرنی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں "پی آر" کا بہت مزاج تھا، مگر اس پی آر کو پیشہ وارانہ نہیں، نہایت ہی ذاتی رویہ بنا کر رکھتا تھا۔ لیکچر مقصود نہیں، مگر پڑھنے والوں میں سے ایک دو اگر میرے پس منظر کے ہیں اور دیہات سے اٹھ کر کسی شہر میں آن بسے ہیں تو پائی جانو، تمھاری 99۔99 فیصد یاریاں، تمھارے عہدوں اور کرسیوں سے ہیں۔ اصل یاریاں بنتے بنتے 25-30 برس لگ جائیں گے۔ اور اگر اتفاق نہیں، تو آپ بھی یہ امب چوپ لیں، بسم اللہ۔
خیر، ان دنوں فیصل سخی بٹ صاحب "قریبی دوست" تھے تو ان کا شیٹو رائیل نامی اک گیسٹ ہاؤس سیکٹر ایف ایٹ میں تھا۔ اب کا معلوم نہیں۔ یہ 2005 یا شاید 2006 کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے گیسٹ ہاؤس میں گپ شپ کے لیے بلایا تو وہاں اک صاحب، کرنل فہیم صاحب بھی موجود تھے۔ ان کے نام کا ڈنکا ان دنوں اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایسے بجتا تھا جیسے محترم عمران خان صاحب کی تقریر: یعنی ہر طرف اور بلند آواز۔ فیصل صاحب شہردار آدمی تھے تو ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، تو اس میں کرنل صاحب کا ہونا کچھ عجب نہ تھا۔ بلکہ اگر وہ نہ ہوتے تو عجب ہوتا۔
کرنل صاحب ان دنوں آئی ایس آئی کے لیے، کم از کم، اسلام آباد کے سیاسی معاملات دیکھا کرتے تھے۔ یا کم از کم میرے علم میں یہی تھا۔ ان سے تھوڑی گفتگو ہوئی تو معلوم ہو کہ وہ پاکستان کے مشہور مارکسسٹ ایکیڈیمیشئن، جناب پروفیسر خواجہ مسعود صاحب مرحوم کے بھانجے تھے۔ خواجہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی اور میں انہیں پڑھا بھی کرتا تھا اور چند اک ملاقاتیں بھی تھیں۔ وہ بہت جینوئن مفکر اور لکھاری تھے۔
گپ شپ کرتے ہوئے کرنل صاحب سے لامحالہ سیاسی گفتگو بھی چل پڑی تو میں نے انہیں انگلی کرائی کہ حلف کے مطابق تو آپ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ انہوں نے ان دبنگ قہقہہ لگایا اور کہا: ساڈی مرضی!
آج کل خبر گرم ہے کہ جنرل ندیم صاحب نے آئی ایس آئی کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے تو یہ کرنل صاحب کی "ساڈی مرضی" یاد آ گئی۔ اب یہ "ساڈی مرضی" کیسے رُکے اور ختم ہوگی، اس پر میرا پنج-حرفہ تبصرہ یہ ہے: "اللہ ای جانے۔ مینوں کی؟"
کرنل صاحب کے حالات سے مجھے بعد از زیادہ واقفیت نہ رہی۔ وہ مگر کسی سکینڈل میں گرفتار ہوئے اور اڈیالہ جیل بھیج دییے گئے۔ ان کا انتقال بھی پر وہیں ہوا۔
مجھے ان کے انتقال کی خبر اپنے چند صحافی دوستوں کے ساتھ گپ ٹھپ کرتے ملی اور میں زمانے کی ہیراپھیریوں پر حیران رہ گیا۔
زندگی اب اک کونے میں بسر کرنے کی عادت ہے۔ محنت کی عادت ہے۔ چھوٹے موٹے بحران رہتے ہیں، مگر ان کی خیر ہے۔ پی آر کی کوئی خواہش باقی نہیں، بلکہ اب اس کے خلاف کی خواہش ہے، یعنی، لانت پاؤ!