شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے
وہ لوگ بلا لاؤ نمکین طبیعت کے
خیرات محبت کی پھر بھی نہ ملی ہم کو
ہم لاکھ نظر آئے مسکین طبیعت کے
دیکھی ہے بہت ہم نے..! یہ فلم تعلق کی
کچھ بول تکلف کے کچھ سین طبیعت کے
اس عمر میں ملتے ہیں کب یار نشے جیسے
دارو کی طرح تیکھے، کوکین طبیعت کے
اک عمر تو ہم نے بھی بھرپور گزاری ہے
دو چار مخالف تھے...! دو تین طبیعت کے
تم بھی تو میاں فاضلؔ اپنی ہی طرح کے ہو
دیں دار زمانے کے..! بے دین طبیعت کے.
فاضل جمیلی
اِک بُت مُجھے بھی گوشئہ دل میں پڑا مِلا
واعظ کو وہم ہے کہ اُسی کو خُدا مِلا
حیرت ہے، اس نے اپنی پرستش ہی کیوں نہ کی
جب آدمی کو پہلے پہل آئینہ مِلا
خورشیدِ زندگی کی تمازت غضب کی تھی
تو راہ میں مِلا تو شجر کا مزا مِلا
دیکھا جو غور سے تو مجسّم تجھی میں تھا
وہ حُسن جو خیال سے بھی ماورا مِلا
سینے میں تیری یاد کے طوفان جب اُٹھے
ذہن اِک بگولا بن کے ستاروں سے جا مِلا
مُجھ سے بچھڑ کے، یوسفِ بے کارواں ہے تو
مُجھ کو تو، خیر، درد مِلا، تُجھ کو کیا مِلا
دن بھر جلائیں مَیں نے اُمیدوں کی مشعلیں
جب رات آئی، گھر کا دِیا تک بُجھا مِلا
یارب، یہ کس نے ٹکڑے کیے روز حشر کے
مُجھ کو تو گام گام پہ محشر بپا مِلا
محکوم ہو کچھ ایسا کہ آزاد سا لگے
انساں کو دَورِ نَو میں یہ منصب نیا مِلا
ماضی سے مُجھ کو یوُں تو عقیدت رہی، مگر
اس راستے میں جو بھی نگر تھا، لُٹا مِلا
دشتِ فراق میں وہ بصیرت مِلی، ندیمؔ
جو مُجھ سے چھن گیا تھا، وہی جا بجا مِلا
احمد ندیم قاسمی
Abdul Basit Pirzada
Delete Comment
Are you sure that you want to delete this comment ?