روزنامہ آزادی
' Ghost Wars
ایک تہلکہ انگیز تصنیف
تحریر: ظہیر الاسلام شہاب
گزشتہ چار عشروں سے جاری افغان جنگ ایک گورکھ دھندے کی مانند ہے۔ کون حق پر ہے، کون باطل، کون کس کا ساتھی ہے، کون کس کا دشمن، کون جیتا، کون ہارا، پردے کے پیچھے اصل کردار کون ہیں، کس کے کیا عزائم ہیں اور کس نے کیا کردار ادا کیا؛ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے بہت سارے ایسے ذرائع تک رسائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک عام شخص کی پہنچ سے بہت دور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر بہت ہی کم پہلوؤں کے بارے میں ایک سطحی اور روایتی بیانیے تک محدود رہنا پڑتا ہے۔
امریکی صحافی، محقق اور ادیب سٹیو کول مشرقی وسطیٰ میں سالوں تک اپنی صحافتی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف حکومتی دستاویزات تک رسائی اور افغان جنگ سے متعلق انتہائی اہم کرداروں کے انٹرویو لینے میں ان کو آسانی رہی۔ ان کی کتاب
Ghost Wars: The Secret History of the CIA, Afghanistan, and Bin Laden from the Soviet Invasion to September 10, 2001
افغان جنگ کی ابتدائی بیس سالہ (1979-2001) تاریخ پر مبنی ایک تحقیقی اور تہلکہ انگیز کتاب ہے۔ روسی یلغار سے لے کر احمد شاہ مسعود کی شہادت تک کے اہم تاریخی واقعات کو زیر بحث لانے والی اس کتاب نے پوری دنیا اور خاص طور پر وائٹ ہاؤس کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ سات سو بارہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت سارے حلقوں میں القاعدہ کی ارتقاء میں سی آئی اے کے خفیہ کردار کے حوالے سے ایک مستند اور جامع کتاب سمجھی جاتی ہے۔
افغان جنگ کے مختلف سٹیک ہولڈرز کے خفیہ اداروں جیسے روسی KGB، امریکی CIA، پاکستانی ISI اور سعودی GID کا افغان جنگ میں انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ مصنف نے ان ایجنسیوں کی خفیہ سرگرمیوں اور پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
جنگ کے لیے سماں کس طرح بندھ گیا، مجاہدین کہاں سے اور کیوں وارد ہوئے، امریکہ، سعودیہ اور پاکستان مجاہدین کی پشت پناہی کیوں اور کس طرح کرتے تھے، کون کس کا چہیتا رہا، جنگ کے لیے پروپیگنڈا کیوں کر ہوا، کس قسم کے سیاسی کھیل کھیلے گئے، مجاہدین کے مختلف گروہوں اور آئی ایس آئی کو امریکہ اور سعودیہ سے کب، کتنا اسلحہ اور کتنے پیسے ملے، کون کتنے میں بک گیا، مجاہدین کو امریکہ ماہانہ کتنی تنخواہیں دیتا تھا، مجاہدین کی ٹریننگ کس نے اور کہاں کی، اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کی روداد، طالبان کیسے وجود میں آگئے، اسامہ کو قتل کرنے کے لیے سی آئی اے کو کیا کیا جتن کرنا پڑے، سی آئی اے کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے کن کن اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، 9/11 کے واقعے کے پیچھے کون لوگ اور کیسے حالات کارفرما تھے، کس نے، کس کے ساتھ، کس طرح کا گٹھ جوڑ کیا، سب کچھ مناسب حوالوں کے ساتھ درج ہے۔
افغانستان ان چار ملکوں کے لیے جنگی تدابیر آزمانے کی لیبارٹری میں کیسے تبدیل ہوا اور یہ ممالک افغانستان میں اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے افغانیوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے رہے، کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
9/11 کے واقعے کو جنم دینے والے محرکات کو سمجھنے اور دہشت گردی کو روکنے کے سلسلے میں سی آئی اے کی پے در پے ناکامیوں پر تفصیلی بحث کتاب کا حصہ ہے۔
ایک عام افغان شہری پر گزشتہ اکتالیس سالوں سے کیا بیت رہا ہے، اس کی کرب ناک زندگی میں کون کونسے موڑ آئے اور اس نے کس کس در کی ٹھوکریں کھائیں، اس حوالے سے عام افغانی شہریوں کے علاوہ بہت ہی کم لوگوں نے لکھا ہے۔ ظاہر ہے، سرحد کے پار لگی ایسی آگ کی فکر وہ لوگ کیوں کریں جو آگ کی تپش سے کوسوں دور اپنی آرام گاہوں میں بیٹھے ہوں۔ ایسے میں پھر فقط تماشا کرنے پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف قسم کے بے بنیاد جواز گھڑ کر اپنے کچھ انتہائی معمولی اغراض کی خاطر آگ کو پھونکیں بھی دی جاتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ عام افغان شہریوں کی حالت زار دنیا پر آشکار کرنے کے لیے بہت ہی کم اور رسمی جملوں پر اکتفا کیا گیا ہے!
موصوف کی دوسری کتاب Directorate S افغان جنگ کی باقی ماندہ بیس سالہ تاریخ پر مشتمل ہے۔ چونکہ مشہور زمانہ Pulitzer Prize جیتنے والی ان کتب میں ایسے بہت سارے الجھا دینے والے سوالات کے جوابات موجود ہیں جو شائد آپ کو دیگر ذرائع سے نہ ملے، اس لیے پڑھ لیں تو اچھا ہے!