مٹھیوں سے پھسلتی رہی زندگی، برف میں
جانے کیسے کٹی حشر کی وہ گھڑی، برف میں
ایک دوجے کو بجھتی نگاہوں سے تکتے رہے
دل میں جو بات تھی رہ گئی، ان کہی برف میں
موت بن کر سرایت رگ و پے میں کرتی رہی
ایک سفاک ٹھنڈ دوسری، بے بسی برف میں
نیوز چینل کی بے حس سکرینوں کو کیا علم ہو
قیمت اس زندگانی کی جو بجھ گئی برف میں
ہر طرف ایک گھمبیر چپ، موت کی چھا گئی
صرف بجتی رہی موت کی راگنی، برف میں
عارف نسیم فیضی