فلاسفر حکومت و فلاسفر عوام
پرانے زمانوں میں کسی جگہ فلسفی سر جوڑے ایک عظیم مسئلے پر غوروفکر کر رہے تھے۔ مگر کسی نتیجہ پر پہنج نہیں پا رہے تھے۔
ان فلاسفہ میں سو سال کے جہاں دیدہ فلاسفہ سے لے کر چالیس سالہ "جوان فکر" فلسفی بھی شامل تھے۔
مسئلہ یا قضیہ انکے سامنے یہ تھا کہ "گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں؟"
کتابیں کھنگالی جا رہی تھیں۔ ۔ صحائف میں کھوج لگایا جا رہا تھا۔
سینہ بہ سینہ علم کے دریا بہائے جا رہے تھے۔ حکایات سے مدد لی جا رہی تھی۔ روایات سے دلیل نکالی جا رہی تھی۔
مگر یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔
پھر یکایک ایک نسبتاً جوان فلسفی کی آنکھیں چمکیں، اس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت مانگی، ۔ ۔ ۔ کہنہ گردنیں اسکی جانب مڑیں، اور سوالیہ دیکھنے لگیں۔
کیوں نہ ہم ایسا کریں کہ ایک گھوڑے کو تجربہ گاہ میں لایا جائے اور ایک ماہر حیوانات اسکے منہ میں دانتوں کی تعداد کو گن کر ہمیں بتا دے کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں؟
جوان فلسفی کی بات ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ فلاسفہ کے اس گروہ کے سب سے معمر فلسفی کی غراہٹ نما ہنکار ہال میں گونجی، اور ہال کے دروازے پر کھڑے نگران آگے بڑھے اور اس جوان فلاسفر کو بازوؤں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔
۔۔۔۔
نوجوانی میں جب یہ حکایت پڑھی تھی تو یقین اور سمجھ دونوں نہیں آئے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
مگر پچھلے چند روز سے ملک عزیز میں جاری بحث نے حرف بہ حرف اس حکایت کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ ۔ وہاں تو چند فلاسفہ تھے، یہاں تو پوری قوم اور انکے رہنما فلاسفی کی اس معراج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ الامان الحفیظ
اور وہ بحث یہ ہے
مری میں ہوٹل مالکان کے بھیس میں درندگی کی حدیں پار کر دینے والے کون ہیں؟
کتابیں کھنگالی جا رہی ہیں ۔ ۔ صحائف میں کھوج لگایا جا رہا ہے۔
سینہ بہ سینہ علم کے دریا بہائے جا رہے ہیں ۔ حکایات سے مدد لی جا رہی ہے۔ روایات سے دلیل نکالی جا رہی ہے۔
دل چاہتا ہے کہ اس نوجوان فلاسفی کی طرح مشورہ دوں کہ حکومت آپ کے پاس ہے۔ ڈیٹا بھی یقیناً ہوگا۔ ایک دو بازاروں میں موجود سو پچاس ہوٹلوں کا ڈیٹا لینے میں ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو کتنا وقت لگتا ہے؟
بس اس طرح گھوڑے کے دانت گنے جائیں گے۔ اور قوم کو بھی پتہ چل جائیگا کہ مری کے ہوٹلوں میں انسانیت کی حد پار کرنے والے گوادر سے لے کر طورخم تک کس ڈی این اے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ۔ ان ہوٹلوں کے مالکان کون ہیں؟ انکے مینیجرز کہاں کے ہیں؟ لوکل ہیں، باہر سے آئے ہیں، یا کہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں؟
مگر مجھے ڈر ہے جس تندہی سے قوم و حکومت اس بحث میں مشغول ہے اور مزہ لے رہی ہے۔ کہیں مجھے بھی اس جوان مگر ناتجربہ کار فلسفی کی طرح محفل سے نکال نہ دیا جائے۔
محمودفیاض
#mahmoodfiaz