تازہ غزل
کہیں پہ خواب کہیں آگہی بناتے ہوئے
وہ سوچتا ہی نہیں زندگی بناتے ہوئے
میں چیختا تھا تو وہ مسکرا کے دیکھتا تھا
درون ذات کہیں پر کمی بناتے ہوئے
نہیں مقید حسن اس لیے تری تصویر
میں چھوڑ دیتا ہوں اچھی بھلی بناتے ہوئے
بنانے والا تھا وہ دو جہاں کی خاموشی
پھر ایک چشم تغافل بنی بناتے ہوئے
میں بیس سال کا عرصہ گزار آیا ہوں
یہ ایک لمحہ موجودگی بناتے ہوئے