ائے خاصہ خاصان رسل اب وقت دعا ہے
ائے خاصہ خاصان رسل اب وقت دعا ہے

ائے خاصہ خاصان رسل اب وقت دعا ہے

@mukhtarnama

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّكَ‌ ۚ لَهٗ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡنَا وَمَا خَلۡفَنَا وَمَا بَيۡنَ ذٰ لِكَ‌ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا‌ ۞

ترجمہ:
اور ہم (فرشتے) صرف آپ کے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں، ہمارے آگے اور ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے وہ سب اسی کی ملکیت ہے، اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے

الٰہی محبوب کل جہاں کو دل و جگر کا سلام پہنچے
نفس نفس کا درود پہنچےنظر نظر کا سلام پہنچے

بِساط عالم کی وسعتوں سےجہان بالا کی رفعتوں سے
مَلَک مَلَک کا درود اترےبشَر بشَر کا سلام پہنچے

حضور کی شام شام مہکےحضور کی رات رات جاگے
ملائکہ کےحسیں جلو میں سحر سحر کا سلام پہنچے

زبان فطرت ہے اس پےناطق یہ بارگاہِ نبی صادق
شجر شجر کا درود جائےحجر حجر کا سلام پہنچے

رسولِ رحمت کا بارِ احساں تمام خلقت کےدوش پر ہے
تو ایسےمحسن کو بستی بستی نگر نگر کا سلام پہنچے

مرا قلم بھی ہے انکا صدقہ مرےہنر پر ہےانکی رحمت
حضور خواجہ مرےقلم کا مرےہنر کا سلام پہنچے

یہ التجا ہےکہ روز محشر گنہگاروں پہ بھی نظر ہو
شفیعِ امت کو ہم غریبوں کی چشم تر کا سلام پہنچے

نفیس کی بس دعا یہی ہے فقیر کی اب صدا یہی ہی
سواد طیبہ میں رہنےوالو کو عمر بھر کا سلام پہنچے

(حضرت سید نفیس الحسینیؒ شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ)

حضرت علی رضی اللہ کے کا ایک شاندار خطبہ




فالمتقون فیھا ھم اھل الفضائل : منطقھم الصواب ، وملبسھم الاقتصاد ، ومشیھم التواضع .غضوا ابصارھم 
اس دنیا میں متقی افراد وہ ہیں جوصاحبان فضائل وکمالات ہوتے ہیں کہ ان کی گفتگو حق و صواب ، ان کا لباس معتدل ، ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے ۔
عما حرم اللہ علیھم ، ووقفوا اسماعھم علی العلم النافع لھم . نزلت انفسھم منھم فی البلاء کالتی نزلت فی الرخاء .
جن چیزوں کو پروردگا نے حرام قراردے دیا ہے ان سے نظروں کو نیچار کھتے ہیں اور اپنے کانوں کو ان کے نفوس بلاء و آزمائش میں ایسے ہی رہتے ہیں جیسے راحت وآرام میں ۔
ولو لا الاجل الذی کتب اللہ علیھم لم تستقر ارواحھم فی اجسادھم طرفة عین شوقا الی الثواب ، وخوفا من العقاب ۔
اگرپروردگار نے ہر شخص کی حیات کی مدت مقررنہ کردی ہوتی تو ان کی روحیں ان کے جسم میں پلک جھپکنے کے برابر بھی ٹھہر نہیں سکتی تھیں کہ انھیں ثواب کا شوق ہے اور عذاب کا خوف ۔ 
عظم الخالق فی انفسھم فصغر مادونہ فی اعینھم فھم والجنة کمن قد رآھا . فھم فیھا منعمّون ، وھم والنار کمن قد رآھا ، فھم فیھا معذبون .
خالق ان کی نگاہ میں اسقدر عظیم ہے کہ ساری دنیا نگاہوں سے گرگئی ہے ۔ جنت ان کی نگاہ کے سامنے اس طرح ہے کہ نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ، ہوں اور جہنم کو اس طرح دیکھ رہے جیسے اس کے عذاب کو محسوس کررہے ہوں ۔
قلوبھم محزونة ، وشرورھم مامونة ، واجسادھم نحیفة ، وحاجاتھم خفیفة ، وانفسھم عفیفة۔
ان کے دل نیکیوں کے خزانے ہیں اور ان سے شرکا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ان کے جسم نحیف اور لاغر اور ان کی ضروریات نہایت درجہ مختصر اور ان کے نفوس بھی طیب و طاہر ہیں ۔
صبروا ایاما قصیرة اعقبتھم راحة طوایلة . تجارة مربحة یسرھالھم ربھم۔
انھوں نے دنیا میں چنددن تکلیف اٹھا کرابدی راحت کا انتظام کرلیااور ایسی فائدہ بخش تجارت کی ہے جس کا انتطام پروردگار نے کردیاتھا۔
ارادتھم الدنیا فلم یریدوھا ، واسرتھم ففدوا انفسھم منھا .
دنیا نے انھیں بہت چاہا لیکن انھوں نے اسے نہیں چاہا اور اس نے انھیں بہت گرفتار کرنا چاہا لیکن انھوں نے فدیہ دے کراپنے کو چھڑالیا۔ 
اما الیل فصافون اقدامھم ، تالین لاجزاء القرآن یرتلونھا ترتیلا ؛یحزنون بہ انفھم ، ویستثیرون بہ دواء دائھم ؛
راتوں کے وقت مصلی پر کھڑے رہتے ہیں ۔ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے نفس کو محزون رکھتے ہیں اور اسی طرح اپنی بیماری دل کا علاج کرتے ہیں ۔
فاذا مروا بآیة فیھا تشویق رکنوا الیھا طمعا ، وتطلعت نفوسھم الیھا شوقا ، وظنوا انھا نصب اعینھم .
واذا مروا بآیة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم ، وظنوا ان زفیر جھنم و شھیقھا فی اصول آذانھم 
جب کسی آیت ترغیب سے گذرتے ہیں تو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جب کسی آیت ترہیب تخویف سے گذرتے ہیں تو دل کے کانون کو اس کی طرف یوں مصروف کردیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہونچ رہی ہو ۔ 
فھم حانون علی اوساطھم ، مفترشون لجباھھم واکفھم ورکبھم ، واطراف اقدامھم ، یطلبون الی اللہ تعالی فی فکاک رقابھم ۔
یہ رکوع میںکمر خمیدہ اور سجدہ میں پیشانی ۔ ہتھیلی ۔ انگلیوں اور گھٹنوں کو فر ش خاک کئے رہتے ہیں پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوں کو آتش جہنم سے آزاد کردے ۔ 
واما النھار فحلماء علماء ابرار اتقیاء قد براھم الخوف بری القداح ۔
اس کے بعد دن کے وقت یہ علما ء ادر دانشمند نیک کردار اور پرھیزگار ہوتے جیسے انھیں تیر انداز کے تیر کی طرح خوف خدا نے تراشاہو۔
ینظر الیھم الناظر فیحسبھم مرضی ، وما بالقوم من مرض ؛ ویقول لقد خولطوا !
دیکھنے والاانھیں دیکھ کربیمار تصور کرتاہے حالانکہ یہ بیمار نہیں میں اور ان کی باتوں کوسنتا ہے کہ ان کی عقلوں میں فتور ہے حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔
ولقد خالطھم امر عظیم !لا یرضون من اعمالھم القلیل ، ولا یستکبرون الکثیر۔
بات صرف یہ ہے کہ انھیں ایک بہت بڑی بات نے مدہوش بنارکھا ہے کہ یہ نہ قلیل عمل سے راضی ہوتے ہیں اور نہ کثیر عمل کو کثیر سمجھتے ہیں ۔
فھم لانفسھم متھمون ، ومن اعمالھم مشفقون ؛ اذا زکی احد منھم خاف مما یقال لہ ۔
اور کہتا ہے کہ میں خود اپنے نفس کو دوسروں سے بہتر پہچانتاہوں اور میرا پرورودگار تومجھ سے بھی بہتر جانتاہے ۔
انتخاب

بسم اللہ الرحمان الرحیم
اَلَّـذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبَآئِرَ الْاِثْـمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ۚ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِـعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْـتُـمْ اَجِنَّـةٌ فِىْ بُطُوْنِ اُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّـوٓا اَنْفُسَكُمْ ۖ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (32)

وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں مگر صغیرہ گناہوں سے (نہیں بچ پاتے)، بے شک آپ کا رب بڑی وسیع بخشش والا ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کیا تھا اور جب کہ تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے، پس اپنے آپ کو پاک نہ سمجھو وہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔