جہنم کے تین درجے۔۔۔

پہلا درجہ
"بیٹی وہ میرا بھتیجا ہے، مرد ذات کو اِن باتوں سے فرق نہیں پڑتا ہوا ۔میں جانتا ہوں تُم سے عُمر میں دُگنا ہے ۔ایک بیوی بُھگتا چُکا ہے اور ایک بیٹی کا باپ ہے ۔۔۔ پر وہ میرے اُس بھائی کا بیٹا ہے جس نے مُجھے باپ کیطرح پالا تھا میں اُسکی حکم عدولی کیسے کروں؟؟؟ اگر میرا خُدا مجھے جنت اور بھائی دوزخ میں جانے کو کہے تو میں بھائی کی خواہش پہ جہنم چلا جاؤں پر تُم میری اولاد ہوکر میرا اتنا سا حکم نہیں مان سکتی ۔۔ اگر تم نکاح پہ نہیں مانو گی تو تمہاری بہن کا اس گھر میں رشتہ ختم ہوجائے گا ۔۔ہمارے گھر بلکہ پورے خاندان کی خوشی کی خاطر نکاح نامے پر دستخط کردو ۔۔
دیکھو بیٹی جہاں بہت سی زندگیاں تباہ ہونے کا خدشہ ہو وہاں کسی ایک کو قربانی دے کر باقیوں کو بچا لینا چاہیے "
باپ کو اسطرح مجبور دیکھ کر اُس نے دستخط کردیئے

دوسرا درجہ
"تمہیں کیالگتا ہے کہ تمہیں دُلہن کے لباس میں دیکھ کر میں پگھل جاؤں گا؟؟؟ مجھے پورا یقین ہے کہ تُم نے ضرور کہیں منہ کالا کیا ہے کسی کے ساتھ، تبھی چچا نے نہ میری پچھلی شادی پہ سوال اٹھایا نہ ہی میری عُمر کو بہانہ بنا کر انکار کیا ۔۔۔ گھر والوں نے اگرمیری محبت کو قبول نہیں کیا تو میں بھی انکی پسند کو کبھی اپنے دل میں جگہ نہیں دوں گا باقی سب کچھ ہوگا تم بیوی رہو گی محبوبہ کبھی نہیں بنو گی "

*" ہم نے تو اس کم عقل کی شادی بھائی سے اس لیے کروائی تھی کہ اپنی کمسنی اور عمر کے فرق کیوجہ سے اسکو قابو کرلے گی اور وہ اپنی غیر مسلم بیوی کو چھوڑ کر "راہ ِ راست" پہ آجائے گا اور ساری سید برادری جو ہم پہ تُھو تُھو کر رہی ہے اُس سے نجات مل جائے گی، پر یہ تو پے در پے بیٹیاں پیدا کرکے اسکے دل میں کیا گھر کرے گی ہمارے بھی دل سے اُتر گئی ہے وہ تو اپنی بیوی کی ذمہ داری نہیں اُٹھاتا تو اُسکی تین تین بیٹیاں کون پالے گا، اسکو وارث مل جاتا تو شائد اسکی بے چین طبعیت سنبھل جاتی "

جس قدر شدت سے تھپڑ اسکے چہرے پر پڑتے تھے اتنی شدت سے اسکی بڑی بیٹی روتی تھی کہ ماں کو باپ کے ہاتھوں ایسے پِٹتا دیکھنا بیٹی کیلئے بہت مشکل سی بات تھی، جب دھکا دے کر دروازے سے باہر نکالا تو ایک لمحے کو دل چاہا کہ سب چھوڑ کر بھاگ جائے، خودکشی کرلے پر اندر سے بیٹی کی روتی آواز نے قدم روک لئے، پھر وہی آواز سنائی دی کہ جہاں بہت سی زندگیوں کے برباد ہونے کا خدشہ ہو وہاں کسی ایک کو قُربانی دے کر باقیوں کو بچا لینا چاہیے" گھر کی گھنٹی پہ ہاتھ رکھا دروازہ کھلنے پر اُسی کے پیروں میں گِر کر اُن گناہوں کی معافی مانگی جو اس نے نہ کبھی کئے تھے نہ وہ جانتی تھی. مرنے کے خوف پر یہ خوف حاوی ہوگیا کہ اسکے بعد خدانخواستہ وہ سارا خاندان رشتوں کے نام پر اسکی بیٹیوں سے بھی ایسے ہی خمیازہ وصول کرے گا اور وہ انکے لیے ایسی زندگی نہیں چاہتی ۔

تیسرا درجہ ۔
باپ کا دل یہ بوجھ سہار نہیں پایا کہ ایک جذباتی فیصلے سے بیٹی کی زندگی برباد ہوگئی تھی، بابا کے جنازے پر بیٹھے بیٹھے ہی اُس نے سرگوشیاں سُنیں کہ خاندان میں کبھی کوئی لڑکی اجڑ کر ماں باپ کے در پہ واپس نہیں آئی، یہ منحوس باپ کو کھاگئی ہے، بھلا چنگا تھا اسکی وجہ سے بدنامی اور ذلت سہہ نہیں پایا کیونکہ بیٹی گھر نہیں بسا سکی ۔
کچھ عرصے بعد بہت قریبی عزیزوں نے کہنا شروع کردیا کہ اسکا اور اسکی بیٹیوں کا گھر میں موجود ہونا اُسکے بھائی کے رشتے میں رکاوٹ ہے کہ طلاق یافتہ ،گھر آئی بہنیں بھائی کا گھر نہیں بسنے دیتیں، ہمت کی اور اپنے کسی ٹھکانے میں بیٹیوں کے ساتھ جا بسی کہ جہاں معمولی رنجشوں سے بہت سی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو وہاں کوئی ایک اپنی انا قربان کرکے بہت سوں کی خوشیاں بچا لے۔

کبھی کبھی وہ میرے سامنے آکر مجھ سے جب یہ سوال پوچھتی ہے کہ" منہا اب میں جہنم کے تین درجوں سے گزر آئی ہوں، جو تھوڑا سا بچا ہے کیا وہ سفر آسان ہوگا؟ "
تو میں نظریں چُرا لیتی ہوں جواب نہیں دے سکتی کہ میں ہمیشہ سے ان سات درجوں کا ذکر سنتی آئی ہوں، کبھی دل چاہتا ہے اسکو مرنے کی دعا دوں کہ اُسکو سکون مل جائے پر وہ جن معصوموں کی ڈھال ہے انکو دیکھ کر پھر اسکو زندگی کی بددعا دیتی ہوں کہ جہاں کئی زندگیوں کے سنورنے کی اُمید ہو، وہاں کسی ایک کا پَل پَل مرنا معنی نہیں رکھتا۔

تحریر مَنہا حیدر