#مسور_بن_مخرمةؓ_فرماتے_ہیں_صحابہؓ_نے_علیؓ_کی_بیعت_کی_اور_طلحةؓ_کو_ترک_کردیا

( #فضائل_علىؓ )

پوسٹ : ( 7 )

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

🗒 ٩٧٠ - حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قثنا وهب بن جرير قثنا جويرية بن أسماء قال حدثني مالك بن أنس عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن المسور بن مخرمة قال : قتل عثمان وعلي في المسجد قال فمال الناس إلى طلحة قال فانصرف علي يريد منزله فلقيه رجل من قريش عند موضع الجنائز فقال انظروا إلى رجل قتل بن عمه وسلب ملكه قال فولى راجعا فرقى في المنبر فقيل ذاك علي على المنبر فمال الناس عليه فبايعوه وتركوا طلحة .

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ، اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں تھے۔ لوگوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنی چاہی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر جانے کا ارادہ کیا ، ان کو ایک قریشی آدمی جنازہ گاہ کے پاس ملا اور کہا : دیکھو! اس شخص کو جس نے اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرکے اس کی حکومت لُوٹ لی ، راوی کہتے ہیں : یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ واپس مسجد آکر منبر پر چڑھے ، تو کسی نے کہا : دیکھو یہ علی رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما ہیں تو سارے لوگوں نے ان کی طرف مائل ہوکر بیعت کرنے لگے اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا .

📕 ( کتاب فضائل الصحابة - للإمام ابو عبد الله - أحمد بن محمد بن حنبل رحمه الله - ص : ٥٧٣ ) .

✍️ کتاب فضائل الصحابة کے محقق وصی الله بن محمد عباس لکھتے ہیں :

إسناده صحيح . جویرية بن أسماء بن عبيد بن محارق ويقال مخراق الضبعي ويقال أبو أسماء البصري ، ثقة قال ابن سعد كان صاحب علم كثير ووثقه أحمد وغيره ، مات ١٧٣ . الجرح ( ١ : ١ : ٥٣١ ) ، التهذيب ( ٢ : ١٢٤ ) . وذكره المحب الطبرى في الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) ونسبه لأحمد في المناقب .

اس حدیث کی سند صحیح ہے . جویرية بن أسماء بن عبيد بن محارق انہیں مخراق الضبعي اور أبو أسماء البصري بھی کہا جاتا ہے ، ثقة ہیں ابن سعد کہتے ہیں کثیر علم والے تھے امام احمد وغیرہ نے ان کو ثقة قرار دیا ہے . ١٧٣ ھـ میں ان کا انتقال ہوا . الجرح ( ١ : ١ : ٥٣١ ) ، التهذيب ( ٢ : ١٢٤ ) . اس حدیث کا ذکر محب الطبري نے الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) میں کرکے اس حدیث کی نسبت امام احمد کی طرف مناقب میں کی ہے .

محب الطبري الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) میں فرماتے ہیں :

🗒 وعن المسور بن مخرمة قال : قتل عثمان وعلي في المسجد، فمال الناس إلى طلحة، قال: فانصرف علي يريد منزله، فلقيه رجل من قريش عند موضع الجنائز فقال: انظروا إلى رجل قتل ابن عمه وسلب ملكه! قال: فولى راجعا فرقى المنبر، فقيل: ذاك علي على المنبر، فمال الناس إليه فبايعوه وتركوا طلحة.

أخرجهما أحمد في المناقب وغيره، ولا تضاد بينهما، بل يحمل على أن طائفة من الناس أرادوا بيعة طلحة والجمهور أتوا عليا في داره فسألوه ما سألوه وأجابهم على ما تقدم تقريره، فخرج بعد انصرافهم عنه في بعض شئونه، فلما سمع كلام ذلك الرجل خشي الخلف بين الناس، فصعد المنبر في وقته ذاك، وبادر إلى البيعة لهذا المعنى، لا لحب المملكة وخشية فواتها وحمية حين سمع كلام ذلك الرجل.

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ مسجد میں تھے ، لوگ طلحہ رضی اللہ عنہ کی رجوع کرنے لگے ، علی رضی اللہ عنہ اُٹھ کر گھر جارہے تھے جنازے کے مقام پر قریش کا ایک آدمی آپ سے ملا اور کہا اس شخص کو دیکھو جس کا ابن عم قتل ہوگیا ہے اور اس کی حکومت پر قبضہ ہونے والا ہے یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ گئے ، جب لوگوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے آپ کی بیعت کی اور طلحہ کو چھوڑ دیا .

اس دونوں حدیثوں کو امام احمد نے مناقب وغیرہ میں نکالا ہے ، ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ان میں تطبیق یوں ہوگی کہ ایک گروہ نے سیدنا طلحہ کی بیعت کی ، جب کہ جمہور نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں حاضر ہوکر آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ، لوگوں کے چلے جانے کے بعد آپ کسی وقت مسجد میں تشریف لائے اور جب مسجد سے گھر کو جارہے تھے تو ایک شخص کی بات کو سنا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ خلیفہ کی نامزدگی پر لوگوں میں اختلاف نمودار ہوگا۔ لہٰذا آپ اسی وقت منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں سے اپنی بیعت لینی شروع کردی ، آپ کو حکومت کا شوق نہیں تھا ، بلکہ اس شخص کے غیرت دلانے پر ایسا کیا .

📕 ( المحب الطبرى في الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) .

🗒 قال ابن إسحاق: إن عثمان لما قتل بويع علي بن أبي طالب بيعة العامة في مسجد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وبايع له أهل البصرة، وبايع له بالمدينة طلحة والزبير.

ابن اسحاق فرماتے ہیں : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیعت عامہ کی گئی اہل بصرہ نے آپ کی بیعت کی ، سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر نے مدینہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی .

📕 ( المحب الطبرى في الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) ، ( المعارف : الدِّينَوري ، ابن قتيبة : ٢٠٨/١ ) .

قال أبو عمر: واجتمع على بيعته المهاجرون والأنصار، وتخلف عن بيعته نفر فلم يكرههم، وسئل عنهم فقال: أولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل، وتخلف عنه معاوية ومن معه بالشام وكان منهم في صفين ما كان، فغفر الله لهم أجمعين ثم خرج عليه الخوارج فكفروه وكل من معه, إذ رضي بالتحكيم في دين الله بينه وبين أهل الشام، فقالوا: حكمت الرجال في دين الله -عز وجل- والله تعالى يقول: { إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ } 1 ثم اجتمعوا وشقوا عصا المسلمين، ونصبوا راية الخلاف، وسفكوا الدماء، وقطعوا السبيل، فخرج إليهم بمن معه، ورام رجعتهم، فأبوا إلا القتال، فقاتلهم بالنهروان، فقتلهم واستأصل جمهورهم، ولم ينج منهم إلا القليل. وقال أبو عمر: وبايع له أهل اليمن بالخلافة يوم قتل عثمان.

ابو عمر ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت متفقہ طور پر مہاجرین و انصار نے کی ، چند لوگ آپ کی بیعت سے پیچھے رہے ، آپ نے ان کو اپنی بیعت نہ کرنے پر مجبور نہ کیا ، اس بارے میں کسی نے آپ سے سوال کیا فرمایا : ان لوگوں نے حق کا ساتھ نہیں دیا اور باطل کی بھی تائید نہیں کی ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نے آپ کی بیعت نہیں کی تھی ، بیعت نہ کرنے والے وہ تھے جو جنگ صفین میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مِل کر آپ سے لڑ رہے تھے . اللہ ان تمام لوگوں کی مغفرت فرمائے ، خوارج نے آپ کے خلاف محاذ قائم کرلیا اور آپ کے ساتھیوں پر کفر کا فتویٰ لگادیا اور کہا کہ آپ نے اللہ کے دین کے بارے میں لوگوں کو حکم قرار دیا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : { إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ } حکم صرف اللہ کا ہے ، یہ لوگ آپ کے خلاف جمع ہوگئے ، مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ، آپ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، انہوں نے مسلمانوں کا خون بہایا ، رہزنی کی ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو لوگ تھے کچھ خوارج سے جاکر مل گئے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں توبہ کرنے کی دعوت دی ، مگر انہوں نے جنگ کرنے کے سوا کوئی تجویز نہ مانی ، آپ نے ان سے نہروان کے مقام پر جنگ کی ، ان کی کمر کو توڑ دیا ، تھوڑے سے باقی رہ گئے باقی سب کو نیست نابود کردیا . اہل یمن نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس دن کی جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے .

📕 ( المحب الطبرى في الرياض النضرة ( ٣ : ٢٩٣ ) ، ( سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتّوالي - تألیف : عبد الملك بن حسین بن عبد الملك الشافعي العاصمي المکي : ١١١١ ھـ - تحقیق و تعلیق : الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علي محمد معوّض - ناشر دارالکتب العلمیة - بیروت - لبنان : ٥٥٦/٢ ) ، ( ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : المحب الطبرى : ١١١/١ ) ، ( ’’ الاستيعاب في معرفة الأصحاب ‘‘ لإبن عبد البر : ٢١٧/٣ ) ، ( تھذیب الکمال في أسماء الرجال - تألیف : الإمام الحافظ أبي الحجاج جمال الدین بن یوسف بن عبد الرحمن المزي ٧٤٢ ھـ : ٣٢٤/٧ ) ، ( تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس - ( ٢٧٥/٢ ) - حسين بن محمد بن الحسن الدِّيار بَكْري (المتوفى: ٩٦٦هـ) - الناشر: دار صادر - بيروت ) ، ( رياض أهل التسديد في شرح زبدة التوحيد دراسة وتحقيق - د / عبد العزیز سعد المحمدي - ص : ٢٧٣ ) ،

image