2 Jahre ·übersetzen

بات 1988 کی جب میں جامعہ رشیدیہ پرائمری سکول ساہیوال میں سیکنڈ گریڈ یعنی پکی جماعت کا سٹوڈنٹ تھا اور پانھ کچے کمروں پر مشتمل سکول عین جی ٹی روڈ کنارے پہ ہوتا تھا۔ اور میری کلاس پھر بھی کچے پہ کھلے میں لگتی تھی یہ وہ دور تھا جب مختلف بڑی کمپنیاں اپنی مشہوری کے لیے اپنے پمفلٹ پرچے جہازوں کے زریعے پھنکوایا کرتی تھیں اور ہم بچوں کو بڑا تجسس ہوتا تھا کہ وہ اسمان سے اڑتی پرچیوں کا پیچھا کریں اور اخر میں دیکھیں کہ ان میں کیا ہے
میں نےزندگی میں ایک بار ان پرچیوں کا پیچھا کیا جب یہ عین چھٹی کہ بعد گرائی گیئں سکول سے دور چھوٹی نہر کراس کر کہ کھیتوں میں جا کر ایک پرچی ہاتھ لگی تو کیا دیکھا کہ اُس پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی یورپ کے کسی ساحل پہ بیٹھے نازیبا تصویر تھی اور نیچے جو تحریر تھی کہ اُف۔۔ یقیننا کسی جہادی کھٹملے جیسے الفاظ '' کیا اپ گوارہ کریں گے ایسی بے راہ رو عورت اپکے اسلامی ملک کی سر براہ اللہ کو کیا جواب دیں گے جیسی فضول بکواس۔۔ بڑے ہوئے تو پتہ چلا وہ اس دور کی جعلی تصویریں بنا کہ دُنیا کو جھوٹ بول کہ بی بی شہید سے بد ظن کیا گیاتھا۔
کچھ دنوں بعد گھر کے قریب انوارالحق رامے کا جلسہ منعقد ہوا اور جلسے سے پہلے کچھ لوگوں کہ ہاتھوں میں وہ ہی پمفلٹ پھر سے نظر اے۔۔یقیننا تب خود ہاتھوں ہاتھ بانٹے گئے ہوں گے۔ یہ نو ستاروں والے جھنڈوں والی جماعت ائی جے ائی کا الیکشن تھا جسے حمید گل جیسے اور دوسرے مردود جرنیلوں نے مل کہ ترتیب دیا تھا۔۔
کیسے کیسے خرابے ہوئے ہمارے ساتھ کہ رب کی پناہ