3 yrs ·Translate

پنجاب کا مقدمہ۔
پنجاب دھرتی کی تقسیم کی ظالمانہ و یکطرفہ کوششیں، اور غیرقانونی علیحدہ سیکرٹریٹس۔
پنجاب دھرتی توڑنے اور علیحدہ سیکرٹریٹس کے حامیوں کے مختلف اعتراضات کا جواب:
یہ پوائنٹ کہ صوبے بنانے سے غربت کم ہوگی۔ تو جناب سندھ اور بلوچستان تو پہلے ہی صوبے ہیں وہاں غربت پنجاب سے بھی زیادہ ہے۔
بھارت و چائنہ کے بہت سارے صوبے آبادی و رقبے میں ہمارے پنجاب سے بہت زیادہ بڑے ہیں۔ مشرقی پنجاب کو بھارت نے صرف خالصتان تحریک کو محدود کرنے کے لیے توڑا۔ جن بڑے صوبوں سے بھارت مضبوط ہوتا ہے وہ ابھی تک نہیں توڑے۔ چائنہ بھی بیوقوف ہے جو بڑے صوبے رکھتا ہے۔ کینیڈا کے صوبے رقبے میں پنجاب سے بہت بڑے ہیں۔ افغانستان کے صوبے چھوٹے ہیں وہاں حال دیکھ لیں۔ فرانس نے بھی اپنے صوبوں کی تعداد کم کردی ہے تاکہ خرچہ بچے کیونکہ زیادہ صوبوں کا خرچہ اور عہدے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
فاصلے تو پھر سندھ، بلوچستان اور کےپی میں زیادہ دور ہیں پنجاب کے فاصلوں کے مقابلے میں وہاں کے صوبائ دارالحکومتوں سے۔
دوسرا جھوٹ کہ لاہور و ملتان کی غربت کی شرح میں فرق۔ شرح بتائ جاتی لیکن تعداد نہیں بتائ جاتی۔ شرح کو دونوں ڈویژنز کی آبادی کے مطابق تعداد میں بدلیں تو سب سے زیادہ غریب لاہور میں ہیں۔ کبھی اعداد و شمار مرتب کریں کہ لاہور ڈویژن میں کتنے بچے غربت کی وجہ سے اسکول جانے کی بجائے کھیتوں اور دکانوں پر کام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملتان ڈیرہ بہاولپور کی غربت و سہولیات کا موازنہ دوسرے صوبوں کے اتنی ہی آبادی والے ڈویژنز سے کرکے دیکھ لیں، ہر لحاظ سے ملتان ڈیرہ بہاولپور بہتر نظر آئیں گے۔
ملتان ڈیرہ وغیرہ سے یہ ہی گیلانی قریشی اور دوسرے وڈیرے مسلسل حکمران رہے تو انھوں نے کیا اقدامات کیے وہاں غربت کم کرنے کے لیے۔ گیلانی قریشی سمیت ملتان ڈی جی خان کے وڈیروں نے مسلسل حکومتوں میں رہ کر کیا اقدامات کیے صاف پانی دینے کے۔ صوبہ بناکر بھی انھی وڈیروں کے ہاتھ میں جائے گی حکومت۔ آخر ان وڈیروں نے مسلسل حکومتوں میں بڑے عہدوں پر رہنے کے باوجود ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر صنعتیں کیوں نہیں لگوائیں۔
پھر یہ جھوٹ کہ سب کچھ لاہور لیجاتا ہے۔ اگر سب کچھ لاہور لیجاتا تھا تو ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور تینوں شہروں میں بڑے ہسپتال، میڈیکل کالجز، انجینرنگ یونیورسٹیز اور دیگر علوم کی بڑی یونیورسٹیز کیسے بن گئیں اور کیسے چل رہی تھیں۔ ملتان میں ذکریا یونیورسٹی، کڈنی سنٹر، چلڈرن کمپلیکس، برن سنٹر اور میٹرو بس کیسے بن گئیں۔ ملتان و رحیم یار خان کی موٹروے کیسے بن گئ، ڈی جی خان کو بلوچستان سے ملانے والا پل اور سڑک کیسے بن گئ۔ مظفرگڑھ اور راجن پور کے بڑے ہسپتال کیسے بن گئے۔ دوسروں صوبوں سے مریض اور طالب علم آتے ہیں ملتان، ڈی جی خان، بہاولپور کے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں۔ راجن پور اور رحیم یار خان کے ہسپتالوں میں سندھ اور بلوچستان سے بھی مریض آتے ہیں۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا کی آبادی ملتان سے زیادہ ہے لیکن ان دو شہروں کو سرکاری سطح پر کئ ایسی چیزیں نہیں ملیں جو ملتان کو ملیں۔ بشمول میٹرو اور برن سنٹر۔
فیصل آباد کو بیرونی ملک کی حکومت نے ٹی وی چینل کے لیے وسائل دیے لیکن وہ وسائل ملتان کے وڈیرے ملتان لے گئے اور ملتان میں اپنی مرضی کا ٹی وی چینل قائم کروایا۔
اس لیے آبادی کے تناسب سے ملتان، ڈی جی خان بہاولپور تینوں ڈویژنز کو زیادہ پیسہ ملا۔ اب بھی زیادہ پیسہ مل رہا ہے۔ بلکہ لاہور سمیت باقی کئ ڈویژنز کو یہ تعصبی بزدار حکومت بہت کم پیسہ دے رہی ہے آبادی کے تناسب سے۔ یہ بھی چیک کرلیں کہ سب سے زیادہ براہ راست ٹیکس کن اضلاع سے اکٹھا ہوتا ہے۔
لاہور کے ساتھ والے تمام ضلعوں شیخوپورہ، قصور، اوکاڑہ، گوجرانوالا، حافظ آباد، ننکانہ، فیصل آباد میں وہ چیزیں نہیں جو ملتان میں ہیں۔
ہاں آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ جو پیسہ ماضی میں سب ڈویژنز کو ملا ان کا بڑا حصہ ان ڈویژنز کے سب اضلاع کو آبادی کے مطابق ملنے کی بجائے ان ڈویژنز کے مرکزی شہروں پر زیادہ لگایا گیا جیسے لاہور، ملتان، راولپنڈی، ڈی جی خان، بہاولپور، سرگودھا، گوجرانوالا، فیصل آباد۔
پھر یہ اعتراض کہ مختلف لہجے بولے جاتے ہیں پنجاب میں۔ اول تو پنجاب میں یہ سب لہجے پنجابی زبان کے ہی لہجے ہیں۔ اگر یہ جواز ہے تو باقی تین صوبوں میں تو مختلف لہجوں سمیت مختلف زبانیں بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہیں تو پھر ان کو کیوں نہیں توڑنے کی کوششیں ہورہیں۔
کیا باقی صوبوں میں علیحدہ سیکرٹریٹس کے تماشے ہوئے؟ کیا سوات، سکھر، چترال، ہزارہ، ڈی آئ خان کے، گوادر کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ چلائے؟
جہاں تک ریتلے علاقے کی بات ہے تو وہ تو پھر قدرتی طور پر صحرائ علاقے ہیں پنجاب کے وہ حصے، اس کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پورے پاکستان سمیت پورے پنجاب میں غربت کی بات ہے تو اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک جو دریا نہیں بیچے تھے ان دریاؤں پر بھی بھارتی قبضے اور دوسرا ایوب خان کی طرف سے بیچے گئے دریا، ان وجوہات کے باعث بقدر ضرورت نہری پانی کی کمی اور بقدر ضرورت سستی بجلی کی کمی۔ جس سے زراعت اور صنعت نقصان میں ہیں۔
لہذا جہاں تک مسائل اور غربت کی بات ہے تو وہ تو اتنے زیادہ ہیں کہ چاہے آپ جتنا مرضی پیسہ لگادیں لیکن مسائل و غربت ختم نہیں ہونے والے جب تک ریاست کی طرف سے ان مسائل و غربت کی اصل وجوہات کو حل نہیں کیا جاتا۔
اس لیے حکومتی فنڈذ کے حوالے سے انصاف یہ ہوتا ہے کہ ہر ضلع کو اس کی رہائشی آبادی کے تناسب سے پیسے دیے جائیں اور وہ پیسے بغیر کرپشن کے اس ضلع پر لگیں۔ کیونکہ حکومتی فنڈذ زیادہ تر ان ہی چیزوں پر لگتے ہیں، سڑکیں، سیوریج، سوہلنگز، پانی کے پائپ، فلٹرز، تعلیمی ادارے، ہسپتال، پارکس، نہروں و کھالوں کی پختگی و صفائ، وغیرہ۔ اس لیے یہ بات عام فہم ہے کہ زیادہ آبادی والے ضلع کی پیسے کی ضروریات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر ایک ضلع کی آبادی ایک کروڑ ہے اور دوسرے ضلع کی ابادی تیس لاکھ ہو، تو ایک کروڑ کی آبادی کو اگر بالفرض سو کروڑ روپے ملیں اور تیس لاکھ کی ابادی کو تیس کروڑ ملیں تو یہ انصاف کہلاتا ہے ابادی کے تناسب سے، نہ کہ ناانصافی۔
تھر، اندرون سندھ اور بلوچستان میں پنجاب سے زیادہ غربت ہے تو وہاں تو پھر چار چار نئے صوبے بننے چاہیئں اگر صوبے بنانے کا بہانہ غربت ہے۔
انتظامی مسائل کا حل مزید اضلاع اور ڈویژنز بناکر کیا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر عوام کے سرکاری و انتظامی کام اپنے ہی ضلع اور ڈویژن میں ہوجاتے ہیں بشمول تعلیمی سرٹیفیکیٹس، پاسپورٹ، شناختی کارڈ، پیدائشی سرٹیفیکیٹس، زرعی اجازت نامے اور دوسرے سرکاری کام وغیرہ، اب تو بلکہ ڈویژن سے ہی آنلائن سرکاری کاغذات نکلواسکتا ہے ڈویژنل ہیڈ کسی بھی محکمے کا دور بیٹھے ہی صوبائ دارالحکومت سے۔
اسی لیے ان نئے سیکرٹریٹس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ انتظامی کام تو ڈویژن کی سطح تک ہوجاتے ہیں۔ یہ سیکرٹریٹس صرف ایک مالیاتی بوجھ ہیں خزانے پر اور سرکاری افسر شاہی کی نئ فوج ظفر موج۔ یہ بس اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ پنجاب کی تقسیم کا تاثر دکھایا جاسکے اور لوگوں کو بیوقوف بنایا جاسکے، کیونکہ صوبہ بنانے کے لیے دوتہائ ووٹ چاہیئں اسمبلیوں اور سینیٹ میں جو ان کے پاس ہیں نہیں۔ جتنا بجٹ ملتان، ڈیرہ، بہاولپور کو دیا جارہا اس بجٹ کا بڑا حصہ یہ سیکرٹریٹس کھارہے، عوام پر کیا لگے گا۔ ویسے بھی اگر ایک سے زیادہ سیکرٹریٹس واقعی انتظامی و عوامی سہولت کے لیے ہوتے تو خیبرپختونخواہ، سندھ اور بلوچستان میں بھی بنائے جاتے، وہاں جنوبی خیبرپختونخواہ، مشرقی و جنوبی بلوچستان اور شمالی و جنوبی خیبرپختونخواہ کے نام سے۔
پھر یہ کہ بہاولپور ریاست تھی۔ تو جناب اول تو بہاولپور کی ریاست پنجاب کی ہی زمین پر قائم کی تھی سندھ سے آنے والے عباسی کلہوڑو خاندان نے۔ بہاولپور ریاست کا گزٹ پڑھ لیں، ریاست کے عوام کی اکثریتی زبان پنجابی تھی۔ لہذا یہ ریاست سندھ کا عباسی خاندان کوئ اپنے ساتھ نہیں اٹھاکر لایا تھا یہ زمین عراق یا سندھ سے۔ بلکہ یہ خاندان خود پنجاب میں ہجرت کرکے آیا تھا سندھ سے اور پنجاب کے علاقے پر ریاست قائم کی۔
اگر پنجاب میں بہاولپور ریاست تھی پاکستان بنتے وقت تو پھر موجودہ صوبہ سندھ میں خیرپور میرس بھی ریاست تھی، بلوچستان کی قلات بھی ریاست تھی اور موجودہ صوبہ بلوچستان چار سے زیادہ حصوں میں تقسیم تھا، صوبہ سرحد میں سوات بھی ریاست تھی، دیر بھی ریاست تھی، چترال بھی ریاست تھی۔ جبکہ فاٹا الگ تھا۔
اس لیے پنجاب دھرتی کو توڑنے کی ناجائز کوششوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے تاکہ ان وڈیروں قریشی گیلانی بزدار وغیرہ اور چینی مافیا جہانگیر ترین کا وڈیرہ راج قائم کیا جاسکے نئے صوبے میں سندھ و بلوچستان کی طرح۔
پنجاب دیس پہلے ہی کئ بار تقسیم ہوچکا ہے پچھلے پونے دو سو سالوں میں۔ صوبہ سرحد بھی پنجاب کے ہی پانچ اضلاع توڑ کر بنایا گیا تھا انگریز کی طرف سے جہاں اس وقت ہندکوہ پنجابیوں اور ڈیروی پنجابیوں کی اکثریت تھی پشاور سمیت تمام شہروں میں جو بعد میں اقلیت بنادیے گئے۔
پھر پنجاب پاکستان بنتے وقت ٹوٹا۔ پھر بھارت نے مشرقی پنجاب کے تین ٹکڑے کیے۔ اس لیے اب پنجاب دھرتی کی مزید تقسیم ناانصافی ہوگی۔ اور تقسیم بھی صرف پنجاب دھرتی کو کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ باقی صوبوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جارہا۔
باقی صوبوں کے رقبے نسل و لسانیت کے نام پر بڑھائے جارہے ہیں لیکن پنجاب دھرتی کو توڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں,
فاٹا کو صوبہ بناؤ، بلوچستان کے چار صوبے بناؤ، سندھ کے صوبے بناؤ، ہزارہ اور سوات چترال کو صوبہ بناؤ۔ لیکن پنجاب دھرتی کی مزید تقسیم صرف ظلم ہوگا پنجابی قوم کے ساتھ...

image