#ام_المؤمنین_عائشةؓ_نے_عثمانؓ_کے_قتل_ہونے_کے_بعد_عبداللہ_بن_بدیلؓ_کو_سیدنا_علیؓ_کی_بیعت_کرنے_کا_حکم_دیا_تھا

( #فضائل_علىؓ )

پوسٹ : ( 11 ) ( قســـط اوّل ) .

✍️ أبو مصعب الأثري

🗒 ٣٨٩٨٦ - خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، قَالَ: انْتَهَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُدَيْلٍ إِلَى عَائِشَةَ وَهِيَ فِي الْهَوْدَجِ يَوْمَ الْجَمَلِ ,

فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ , أَتَعْلَمِينَ أَنِّي أَتَيْتُكِ يَوْمَ قَتْلِ عُثْمَانَ

فَقُلْتُ : إِنَّ عُثْمَانَ قَدْ قُتِلَ فَمَا تَأْمُرِينِي

فَقُلْتِ لِي: الْزَمْ عَلِيًّا

فَوَاللَّهِ مَا غَيَّرَ وَلَا بَدَّلَ , فَسَكَتَتْ ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , فَسَكَتَتْ

فَقَالَ: اعْقُرُوا الْجَمَلَ , فَعَقَرُوهُ , قَالَ: فَنَزَلْتُ أَنَا وَأَخُوهَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَاحْتَمَلْنَا الْهَوْدَجَ حَتَّى وَضَعْنَاهُ بَيْنَ يَدَيْ عَلِيٍّ , فَأَمَرَ بِهِ عَلِيٌّ فَأُدْخِلَ فِي مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُدَيْلٍ ; قَالَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي الْمُغِيرَةِ: وَكَانَتْ عَمَّتِي عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُدَيْلٍ , فَحَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهَا: أَدْخِلِينِي , قَالَتْ: فَأَدْخَلْتُهَا وَأَتَيْتُهَا بِطَشْتٍ وَإِبْرِيقٍ وَأَجَفَتْ عَلَيْهَا الْبَابَ , قَالَتْ: فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهَا مِنْ خَلَلِ الْبَابِ وَهِيَ تُعَالِجُ شَيْئًا فِي رَأْسِهَا مَا أَدْرِي شَجَّةً أَوْ رَمْيَةً "

ابن ابزی سے منقول ہے کہ عبد اللہ بن بدیل ام المومنین سیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے وہ ہودج میں تھیں جنگ جمل کے دن پھر

عرض کیا اے ام المومنین آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ جانتی ہیں کہ میں آپ کے پاس اس دن حاضر ہوا تھا جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا۔

میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اب آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں

تو آپ نے فرمایا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کو لازم پکڑو

اللہ کی قسم وہ بدلے نہیں پس سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں پھر یہی بات عبد اللہ بن بدیل نے تین دفعہ دہرائی پس وہ خاموش رہیں۔

عبد اللہ بن بدیل نے اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کا حکم دیا تو اوٹنی کی کونچیں کاٹ دی گئیں پس میں اور سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر اترے اور ان کے ہودج کو اٹھا کر علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دیا۔ پھر ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے عبد اللہ بن بدیل کے گھر میں داخل کر دیا۔ جعفر بن ابی مغیرہ کہتے ہیں میری پھوپھی عبد اللہ بن بدیل کے ہاں تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا مجھے اندر داخل کردو پس میں نے انہیں اندر داخل کر دیا اور میں نے ان کو ایک سفلچی ( ہاتھ وغیرہ دھونے کا برتنر) اور جگ ان کے پاس رکھ دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ کہتئ ہیں کہ میں دروازے کی دراڑوں میں سے دیکھ رہی تھی کہ وہ اپنے سر کا علاج کر رہی تھیں میں نہیں جانتی کہ ان کے سر میں کوئی زخم تھا یا تیر کا زخم۔

📕 ابن ابی شیبة نے اس روایت کو مصنف ( ٥٤٥/٧ ) میں روایت کیا ہے۔ اس روایت کی سند جید ہے۔ اس روایت کو ’’ العقد الفريد ‘‘ ( ١٠٧/٢ ) میں ابن عبد ربه الأندلسي نے اسی طرح نکالا ہے۔

✍️ ابن ابی شیبة کے محقق محمد عوّامة لکھتے ہیں:

📕 ٣٨٩٨٦ نقل الحافظ في ’’ الفتح ‘‘ ١٣ : ٥٧ ( ٧١٠٠ ) الفقرۃ الأولی ، وعزاھا إلی المصنّف وقال : ’’ بسند جید ‘‘ . ( المصنّف ابن ابي شیبة کتاب الجمل ٤٠٢/٢٢ - تحقیق : محمد عوّامة - مؤسسة علوم القرآن ) .

حافظ نے اس کو ’’ الفتح ‘‘ ١٣ : ٥٧ اور اس کو ’’ مصنف ابن ابی شیبة ‘‘ کی طرف منسوب کیا اور کہا : ’’ جید سند کے ساتھ یہ روایت ہے ‘‘ ( ٤٠٢/٢٢ ) .

✍️ فواز بن فرحان بن راضي الشمّري اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :

إسناده حسن . يعقوب : هو ابن عبد الله بن سعد القمي . وابن أبزى : هو عبد الرحمن رضي الله عنه كما في الفتح .
وجود إسناده ابن حجر في الفتح الباري ( ٥٧٧/١٣ ) قال : [ أخرج ابن أبي شيبة بسند جيد عن عبد الرحمن بن أبزى قال....] فذكره .

اس روایت کی سند حسن ہے . یعقوب : وہ ابن عبد اللہ بن سعد القمی ہے . اور ابن ابزی : عبد الرحمن بن أبزی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ فتح الباری میں ہے . اور ابن حجر نے الفتح الباري ( ٥٧٧/١٣ ) میں اس روایت کی سند کو جید الاسناد کہا ہے اور کہا ابن ابی شیبہ نے اس کو عبد الرحمن بن أبزی سے جید سند کے ساتھ تخریج کیا ہے پھر حدیث ذکر کی .......

📕 ( سلسلة أخبار صفين - صحيح أخبار صفين والنهروان عام الجماعة ٣٣٦/١ - تأليف : فواز بن فرحان بن راضي الشمّري - دارالكتب العلمية - بيروت - لبنان ) .

image