2 ans ·Traduire

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ

تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا

موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

غالب