مراثی کا بچہ پڑھ لکھ کر سیمنٹ کی بڑی فیکٹری میں افسر لگ گیا ، اختیار ملتے ہی اپنے جاننے والوں کو بلیک میں سیمنٹ فروخت کرنے لگا ۔ مراثی کو علم ہوا تو وہ بھی اس حرص سے بیٹے کے پاس چلا گیا کہ چند بوریاں نکلوا کر باہر بیچ دے گا ۔ مراثی نے بیٹے سے جا کر کہا مجھے 20 بوریاں سمینٹ نکلوا دو ۔
بیٹا بولا ابا نہ نہ میرا ضمیر جھاگ رہا اتنا بڑا فراڈ مجھ سے نہیں ہوگا ۔ مراثی بولا چلو 10 بوریاں دے دو ، وہ بولا نہیں میرا ضمیر نہیں مانتا ، مراثی 5 بوریاں پر آگیا مگر بچے کی ایک ہی رٹ تھی کہ ابا میں باضمیر ہوں مجھ سے نہیں ہوگا ۔

مراثی تنگ آکر کرسی سے اٹھا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے بولا ۔ کاکا ہون میں دو مٹھاں تے سیمنٹ دیاں لے کر ای جانا اے۔۔
بیٹا ہنستے ہوئے بولا تسی دو مٹھ سیمنٹ دا کی کرو گے ۔۔

مراثی : تیری ماں دی لتاں وچ لانا اے تاکہ کوئی ہور باضمیر نہ نکل سکے۔۔

تماری ماں کی ٹانگوں میں لگاؤں گا تاکہ کوئی اور باضمیر نہ نکل پڑے ۔۔

--------------------------------------------------------------------
اخے ھم باضمیر لوگ ہیں ، ضمیر کی آواز پر سندھ ہاؤس آئے ھیں ۔۔۔

image