میری زیرِ تالیف کتاب سے کچھ اقتباسات،
مسلمانوں کی تعلیم اور انگریزوں کے ساتھ ایک اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی نیت سےشروع کیا جانے والا منصوبہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، بیسویں صدی کے آغاز سے مسلمانوں کی سیاست کا محور بننا شروع ہوگیا تھا۔ اگرچہ خلافت تحریک کے زمانے میں گاندھی جی، محمد علی جوہر اور چند دوسرے رہنماؤں نے یہاں کے دورے کئے اور یہاں کے اسٹاف اور طلبا کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہا، مگر انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ علامہ اقبال، شبلی نعمانی، حسرت موہانی، ہاشمی فریدآبادی، محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، اورمولانا ابوالکلام آزادکی نظم و نثر کی آوازوں سے گونجتی علمی ، ادبی، اور ثقافتی رہنمائی فراہم کرنے والی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ، جہاں سرمایہ دارانہ استحصال، طبقاتی کشمکش، بغاوت کے موضوعات، سامراجیت کے سدِ باب، قوم پرستی اور سوشلزم پر پہلے ذکر کئے گئے ناموں کے علاوہ کئی اوراہم ادیب اور شاعر بشمول سجاد حیدر یلدرم، ولایت علی بمبوق، قاضی عبدالغفار، اورعبدالرحمن بجنوری وغیرہ مسلمانوں کی ذہن سازی میں مصروف تھے، وہ تیسری دھائی کے آخر میں واضح طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی تھی۔ یونیورسٹی کا آفتاب ہال خصوصی طور پر رنگا رنگ سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ تھا، جہاں اسرارالحق مجاز اور دوسرے شعرا و ادیب ، طلبا کا لہو گرماتے رہتے تھے۔ اسی آفتاب ہال میں 1936ء میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ کچھ عرصہ کے بعد کانگریسی نظریات والے پروفیسروں کے لئے علی گڑھ میں اپنا پروگرام آگے بڑھانا دشوار ہوگیا تھا۔ قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد تو جیسے مسلمان طلبا کو اپنی شناخت حاصل ہوگئی اور وہ قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کی تقریروں سے رہنمائی لے کر اپنے آپ کو آنے والے معرکے کے لئے منظم کرنے میں لگ گئے۔ ایک اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم لیگ سر ضیاالدین کو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنوانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ بچہ مسلم لیگ اور یونیورسٹی سٹی لیگ کا قیام پہلے ہی عمل میں آچکا تھا۔
مختار مسعود جو ان دنوں مسلم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کررہے تھے، وہ اپنی کتاب ’ حرف شوق‘ میں لکھتے ہیں کہ ”مسلم لیگ کی تنظیم نو اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں قائداعظم 7مرتبہ علی گڑھ آئے۔ فروری 1938 ء، اپریل 1939 ء، مارچ 1940 ء، مارچ 1941 ء، نومبر 1941 ء، نومبر 1942 ء، اور مارچ1944ء۔ 7 سالوں میں سات پھیرے 5 مرتبہ سالانہ اور ایک سال 1941 میں دو بار غیر حاضری کا سال 1943 ء ہے، جب ان پر جولائی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ “
#Pakistan #Jinnah #Independence #facelore

image