اسلام اور ثقافت کے دھبے

میرا آبائی شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے جو وسطی پنجاب کا ایک چھوٹا سا ضلع ہے ۔ تقریبا ہر بندہ ہی دوسرے بندے کو جانتا ہے۔ زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک صنعتی اور ماحولیاتی متاثرین میں شمار نہیں ہوتا۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جادو اب یہاں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور زرعی دقبہ اب گھروں اور پلاٹسں میں بدل رہا ہے۔
دسمبر میں پرل ریزیڈینشیا نام کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے اعلان کیا کہ نیو ائیر پر ایک شو منعقد کیا جائے گا جس میں ملک کے معروف فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔
اعلان ہونا ہی تھا کہ شہر کا مزہبی طبقہ جو چند مولوی حضرات پر مشتمل ہے ڈی سی او دفتر پہنچ گیا اور یہ ایونٹ منسوخ کرنے کا کہا۔
ڈی سی او صاحب نے پریشر میں آکر پابندی لگا دی کہ یہ بے راہ روی ہے اور ہماری نئی نسل کو اس سے بچنا چاہئے۔
مولوی حضرات بخوشی واپس لوٹ گئے۔ نیو ائیر سے چند دن پہلے دوبارہ اجازت دے دی گئی اور شہر کی عوام پوری رات پرل ریزیڈنشیا پر ناچتی گاتی رہی۔
اگلے دن مولوی حضرات نے پریس کانفرنس کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور دوبارہ ایسے ایونٹس نا کروانے اور روکنے کا اعلان کیا۔
میاں نے بخوبی اس پوری واردات کا معائنہ کیا اور نتیجہ نکالا کہ ڈانس کرنا بے حیائی ہوگا لیکن نصف ایمان صفائی اور رشوت لینے دینے والا دونوں دوزخی یعنی پکے جنتوں باہر۔
اسی شہر میں رشوت لئے بغیر ایک بھی سرکاری کام نہیں ہوتا۔ گندگی کے ڈھیر کبھی ان علماء کرام کو ترغیب نہیں دیتے کہ ان کے اس علاقے کا آدھا ایمان تو جماندرو ہی غائب ہے۔
ان علماء حق کو کبھی سرکاری اداروں کا باجماعت دورہ کرنے کی توفیق کب ہوگی کہ رشوت خوروں کو بھی جہنمی ہونے سے بچا سکیں۔
ڈاکٹرز اور میڈیکل لیبارٹریاں آپس میں مل کر جب عام کو لوٹتے ہیں تو ان کو کیوں یہ اسلام کے عین مطابق لگتا ہے۔
(میاں ضیاءالحق )

image