ٹورازم سینس
خان حکومت میں آتے ہی اعلان کیا کہ ہمارا ٹورازم پوٹینشل 40 ارب ڈالر سالانہ تک ہے۔ اس بات کو سیریس لیا جاتا تو بات 40 ارب ڈالر سے بھی کراس کر جاتی۔
پچھلے ہفتے خان کا یہی بیان نظر سے گزرا جو ہوبہو انہی الفاظ پر مشتمل تھا تو اس پر ایک دس نقاطی رائے دی کہ پہلے آپ یہ کرلیں پھر ٹورسٹس لائنیں لگ جائیں گی۔
ادھر رولا یہ ہے جس موضوع پر بات کرو اس کے خوامخواہ کے حمایتی چڑھ دوڑتے ہیں کہ بات ہی کیوں کی۔ ابھی ساڑھے تین سال ہی تو ہوئے ہیں۔ تنقید کرنی ہے تو یہ کام خود کرلو۔ یعنی جس کام کے لئے ایک بندہ رکھا ہے وہ نہیں کررہا تو آپ خود کرلو۔ یہ حل نکالا ہے ہر حمایتی جیالوں نے۔
پاکستان میں ٹورازم پوٹینشل بلاشبہ دنیا کے کسی بھی بہترین ٹورسٹ فرینڈلی ملک کے برابر یا اس سے زیادہ ہی ہے لیکن رولا پھر وہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پلاننگ کے بغیر سب کچھ خودبخود ہوجائے۔
سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ کے دس ممالک گھوم چکا ہوں وہاں قدرتی مناظر خوبصورت ہیں تو ان کو خوبصورت بنایا اور رکھا بھی گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے باقاعدہ ادارے موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس ٹورازم انڈسٹری سے منسلک ہر مسئلے کا حل مسئلہ پیدا ہونے سے پہلے ہی کردیا جائے اور وہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یورپ کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے Alps ایلپس کی بات کرلیتے ہیں۔ یہ 1200 مربع کلومیٹر لمبا اور 3 لاکھ مربع کلو میٹر ٹوٹل رقبہ پر مشتمل پہاڑی علاقہ ہے اور یورپ کے آٹھ ممالک کو لگتا ہے جن میں سوئٹزرلینڈ، جرمنی، اٹلی، فرانس، آسٹریا، موناکو، سلوینیا اور لکٹنسٹائن ہیں ان کو الپائن کنٹریز کہتے ہیں۔
پیرس کے بعد اس خطے کو دیکھنا بڑی خواہش تھی تو سوئٹزرلینڈ کا انتخاب کیا جس کا 58 فیصد اس پہاڑی سلسلے میں موجود ہے۔ 2019 میں دسمبر میں اس علاقے کا وزٹ کیا جو سرد ترین موسم تھا۔ برف باری وقفے وقفے سے ہورہی تھی اور ٹمپریچر مائنس 8- سے 12 - تک جارہا تھا۔ اب سویٹزر لینڈ کے اس شہر کا انتخاب کرنا تھا جو اس پہاڑی علاقے کے بالکل درمیاں یعنی برف سے لدا ہوا ہو تو وہ دو شہر ملے ایک Zermatt اور دوسرا St. Moritz .
ان دو شہروں کو مزید فلٹر کیا تو معلوم ہوا کہ زرمٹ میں سوس پہاڑ میٹر ہارن موجود ہے جو سوس علاقے کی پہچان ہے تو اس شہر کا انتخاب کیا۔
مزید معلوم تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس شہر میں پرائیویٹ گاڑی اور پٹرول سے چلنے والی تمام گاڑیاں داخل نہیں ہوسکتیں۔
اگر آپ زیوریخ جنیوا یا کسی اور شہر سے بائی کار آرہے ہیں تو آپ کو اپنی کار شہر سے بیس کلومیٹر دور پارک کرنا ہوگی اور وہاں سے پھر ٹرین آپ کو لے کر زرمٹ شہر پہنچے گی۔ دوسری صورت میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ کار پر مت آئیں۔ زیوریخ اور جنیوا سے براہ راست ہر گھنٹے بہترین قسم کی لگژری ٹرینز چلتی ہیں وہ لیں اور اس خوبصورت شہر پہنچ جائیں۔
اس شہر کا کل رقبہ جو آباد ہے وہ تقریبا ہوٹلز پر ہی مشتمل ہے جیسا کہ ہمارا مری، سوائے کچھ سرکاری عمارات کے۔
ٹرین آپ کو شہر کے عین درمیاں میں اتارتی ہے تو آپ پیدل ہی ہر طرف جاسکتے ہیں۔
میں نے بھی زیوریخ سے ٹرین پکڑی اور باہر کے خوبصورت مناظر دیکھتا ہوا 4 گھنٹے بعد بلا کیسی رکاوٹ زرمٹ شہر میں موجود تھا اور پیدل ہی اپنے ہوٹل گیا تھا جو صرف 800 میٹر کے فاصلے پر تھا اور آن لائن پہلے سے ہی بک تھا۔ نا کسی کو کمیشن دیا نا اترتے ہی ہوٹل ایجنٹس سے گھیرا گیا۔
اب بات کرتے ہیں اپنی تو ہمارے پاس تین پہاڑی سلسلے موجود ہیں۔ ہمالیاز، قراقرم اور ہندوکش۔
ہمالیہ کی لمبائی 2400 کلومیٹر اور ٹوٹل رقبہ 5,95,000 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان انڈیا نیپال بھوٹان اور چائنا سے گزرتا ہے یعنی یورپی ایلپس کا دوگنا۔ پاکستان کے پاس ہمالیاز کا 84000 مربع کلومیٹرز موجود ہے۔ نانگا پربت اس سلسلے کا بڑا پہاڑ ہے جبکہ ماونٹ ایورسٹ سب سے بڑا۔
اسی طرح قراقرم کا کا ٹوٹل رقبہ 2,07,000 مربع کلومیٹرز ہے اور پاکستان انڈیا افغانستان تاجکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ کے ٹو اور راکاپوشی اسی سلسلے میں واقع ہیں۔
ہندو کش تقریبا ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹرز پر مشتمل ہے اور ترچ میر سب سے بڑا پہاڑ ہے۔
اس کے علاوہ مارگلہ ہلز اور اس کے آس پاس کے سبز پہاڑ بھی موجود ہیں جن میں مری نتھیا گلی پتریاٹا وغیرہ بہترین موسم رکھتے ہیں۔
اب ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا برف صرف مری نتھیا گلی میں ہی پڑتی ہے جو لوگ باولوں کی طرح دیکھنے چل پڑتے ہیں۔ یہ لوگ کیوں متبادل شہروں اور پہاڑی سلسلوں کا رخ نہیں کرتے۔
مری اور اس کے آس پاس کے شہروں کو جانے کے لئے پرانے روٹ کی سڑکیں اور موٹر ویز موجود ہیں اس لئے لوگ چاہتے ہیں کہ پورا دن وہاں گزار کر رات کو واپس گھر آیا جائے۔
اگر یہ شہر سیاحوں کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہوتے تو مقامی افراد کے علاوہ کسی بھی گاڑی کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تمام کاریں اسلام آباد پنڈی یا اس کے آگے کسی بھی جگہ پارک کرکے براستہ ٹرین ان کو شہر لے جایا جاتا جیسا کہ سوس شہر نے کیا۔ پہاڑی کے اوپر موجود چھوٹا سا شہر تو خود اپنے باسیوں کے لئے ناکافی پڑ چکا ہے تو ایک لاکھ گاڑیوں میں گئے 2 سے 3 لاکھ افراد کیسے بحفاظت آجا سکتے ہیں۔
مری پتریاٹا مظفر آباد اور نتھیا گلی کے لئے فوری طور پر ٹرین کا ٹریک بچھایا جائے اور تمام سیاحتی گاڑیوں کی فی الفور مری آمد پر مکمل پابندی لگائی جائے ورنہ یہ المناک واقعات ہوتے رہیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ مری جیسے مزید شہر بسائیں جہاں جدت نظر آئے۔ ہمالیاز، قراقرم اور ہندو کش میں بہت سے پوٹینشل مقامات ہیں جہاں یہ شہر بسائے جا سکتے ہیں۔ ان تمام نئے شہروں تک مستقل بنیادوں پر ٹرین چلائی جائے اور پرائیوٹ سیاحتی کاریں ممنوع قرار دی جائیں۔
سوس اٹالین اور فرینچ لوگ ایلپس کے منفی سنٹی گریڈز میں نا صرف رہتے ہیں بلکہ کام پر جاتے ہیں سکول ہسپتال اور ٹرانسپورٹ کبھی نہیں رکتی۔ حکومت اپنے وسائل ان تمام شمالی علاقہ جات پر خرچ کرے تاکہ واقعی 40 ارب ڈالرز سالانہ کمانے کا خواب پورا ہوسکے۔
(میاں ضیاءالحق )

image