ایک صفحے کا ڈرامہ :- نمبر 13

" چراغ دین کے گھر اندهیرا "

مقام :- ملتان.
زمانہ :- موجودہ.
موسم :- بہار کا.
وقت :- فجر کے بعد.

کردار
۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ وجدان (سماجی کارکن، عمر- 45 - 50 سال کے درمیان).
2 ۔ نائلہ (وجدان کی بیوی، عمر۔ 40 ۔ 45 سال کے درمیان).
3 ۔ خالد (ہمسائے کا بیٹا, عمر۔ 10۔ 12 سال).
4 ۔ چراغِ دین (معذور ہمسایہ۔ عمر۔ 55 ۔ 60 کے درمیان).

سیٹ :-
( چند گهروں پر مشتمل ایک بند کوچے کا سیٹ، دائیں جانب ایک گلی بیرونی دنیا سے کوچے کو ملاتی ہے. بائیں جانب دو گهروں کے دروازے ہیں. دائیں طرف گلی سے پہلے ایک گهر کا دروازہ ہے. بالکل سامنے والے گھر کے درمیان میں کهڑکی، دائیں طرف دروازہ اور بائیں طرف ایک بند گلی ہے جو اندرونی طرف کے گهروں کو کوچے سے ملاتی ہے. سامنے والے گهر کے آگے دو فٹ اونچی لکڑی کی چوکی رکهی ہے جس پر پانچ چھ افراد بیٹھ سکتے ہیں وائلن کی دهن پر آہستہ آہستہ پرده کهلتا ہے).

منظر :- وجدان، روشنی کے دائرے میں، سفید شلوار قمیض، ترکی ٹوپی پہنے، کمر کے گرد سبز رنگ کا کپڑا باندهے، سر جھکائے، چوکی پر پاؤں لٹکائے بیٹها ہے. پرده مکمل کهلنے پر۔

وجدان :- (چوکی سے اٹھ کر دائیں طرف چند قدم ترچها چل کر رکتا ہے، اپنا رخ اور دونوں ہاتھ تماشائیوں کی جانب پھیلا کر بولنا شروع کرتا ہے.)

دنیا کے باسیو!... آوء
اک کاروبار کرتے ہیں
سرمایہ نہیں چاهئیے اس میں
اور منافع بے شمار هوتا هے
آوء جذبات و احساسات کی
بات کرتے هیں
امن و محبت کی تجارت
عام کرتے هیں
پهول اک دوسرے کو
ایسے تحفہ کرتے هیں
رنگ دودهیا سفید هوں جنکے
عداوت کے نوکیلے پنجوں کو
نفرت کے خوں آشام لہجوں کو
دفن کرتے ہیں پیار کی مٹی تلے
آوء اک اچهے کام کا
آغاز کرتے هیں
امن و سلامتی کی تجارت
عام کرتے ہیں
اپنی صبح وشام دوستی کے
نام کرتے هیں
آتشیں اسلحہ تمام
سپرد خاک کرتے ہیں
رنگ و نسل، قومیت اور مذہب
اپنی جگہ مقدم
آج بقائے انسانیت کی
کچهه بات کرتے ہیں
امن و محبت کی تجارت
عام کرتے ہیں
دنیا کے باسیو! ...آوء
امن و محبت کی تجارت کا
آج سے آغاز کرتے ہیں

(پھول دینے والے لفظوں سے پہلے، وجدان کی بیوی نائلہ، تصوراتی انداز میں ہاتھوں میں پھول لے کر آتی ہے۔ ایک دوسرے کو پھول دیتے ہیں اور فضا میں بکھیرتے ہیں۔ نائلہ گھر کے اندر جاتی ہے اور کھڑکی سے دیکھتی ہے۔ وجدان، معنی کے اعتبار سے ادائیگی اور بھاؤ بتاتے ہوئے تمام الفاظ مکمل کرتا ہے۔ اسٹیج مکمل روشن ہوتا ہے، نائلہ گھر سے باہر آتی ہے)

نائلہ:- (تالیاں بجاتے ہوئے) واہ واہ واہ بہت خوب جناب، آج یہ صبح سویرے کیا ہو رہا ہے۔
وجدان:- (چوکی پر بیٹھ کر) ریہرسل ہو رہی تھی۔
نائلہ:- (وجدان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے) ریہرسل؟ کیسی ریہرسل؟
وجدان:- نائلہ!! ایسا ہے کہ آج شام فن کدہ آڈیٹوریم میں ہونے والی ایک تقریب میں ہماری NGO نے مختصر دوانئیے کا ایک ڈرامہ کرنا ہے۔ میں اپنے کردار کی ریہرسل کر رہا تھا۔
(دائیں جانب کے پہلے گھر سے ایک دس بارہ سال کا لڑکا آتا ہے، چوکی پر اور ادھر ادھر کچھ تلاش کرنے لگتا ہے)
نائلہ:- (لڑکے سے) خالد!! نہ سلام نہ دعا، اور یہ ادھر ادھر کیا تلاش کر رہے ہو؟
خالد:- (بھول پن سے) میں بھول گیا آنٹی، السلام وعلیکم
وجدان+نائلہ:- وعلیکم السلام۔
نائلہ:- بیٹا! مسلمانوں کو ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنا، بھولنا نہیں چاہئیے۔
خالد:- جی آنٹی! میں معافی چاہتا ہوں۔ آئندہ نہیں بھولوں گا۔
نائلہ:- ٹھیک ھے۔ لیکن تم یہاں کیا تلاش کر رہے تھے۔
خالد:- رات میرے ابّو یہاں چوکی پر اپنی ٹوپی بھول گئے تھے، وہ لینے آیا تھا۔ (اپنے گھر جاتے ہوئے) لیکن ٹوپی تو یہاں نہیں ہے۔
وجدان:- ٹوپی کہاں رکھی تھی، تمہارے ابو نے۔
خالد:- ابو نے کہا تھا کہ چوکی پر رکھی ہوگی۔ (وجدان کو دیکھ کر اس کے سر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) لیکن ٹوپی تو آپ کے سر پر رکھی ہے۔
نائلہ:- خالد! ٹوپی ان کے سر پر رکھی نہیں، انہوں نے سر پر پہنی ہوئی ہے۔
خالد:- جی آنٹی! ایک ہی بات ہوئی نا۔
وجدان:- بیٹا تمہارے ابو کی ٹوپی، چوکی پر ہی رکھی تھی، میں نے اٹھا کر پہن لی تھی۔ (سر سے ٹوپی اتار کر خالد کو دیتے ہوئے) یہ لو۔
خالد:- آپ کا شکریہ (اپنے گھر چلا جاتا ہے)
وجدان:- (نائلہ سے) اور تم نے دوپٹہ کیوں نہیں لیا ہوا۔
نائلہ:- اپنی کمر سے کھول کر دیں گے تو اوڑھوں گی۔
وجدان:- او ہو۔۔سوری بھئی، (کمر سے ڈوپٹہ کھول کر نائلہ کو دیتا ہے) یہ لو۔
نائلہ:- (دوپٹہ اوڑھتے ہوئے) آج کی تقریب کا موضوع کیا ہے۔
وجدان:- آج کی تقریب کا موضوع ہے۔ محبت، امن، دوستی اور دنیا کے تمام نادار اور مستحق انسانوں کی خوشحالی۔
(بند گلی سے بیساکھیوں کے سہارے، چراغ دین داخل ہوتا ہے۔ اس کا حلیہ بتا رہا ہے کہ زمانے کا ستایا ہوا ہے)
نائلہ:- واہ بہت خوب، یہ تو بہت اچھا موضوع ہے۔
وجدان:- (مسرت کا اظہار) نائلہ! ہماری NGO کا مطمع نظر ہی یہ ہے کہ تمام دنیا امن، محبت اور دوستی کا گہوارہ بن جائے۔ تمام دنیا کے پسماندہ، نادار اور مفلس انسان خوشحال ہو جائیں۔
چراغ دین:- (طنزیہ انداز) ماشاءاللہ، کتنے اچھے خیالات ہیں تمہارے، وجدان صاحب، اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے مقصد میں کامیاب کرے۔
وجدان:- شکریہ! چراغِ دین بھائی۔ ان شاءاللہ ایک دن آئے گا کہ میری اور مجھ جیسے میرے ساتھیوں کی محنت رنگ لائے گی اؤر تمام دنیا میں امن، محبت، دوستی کا بول بالا ہو گآ اور غربت کے مارے دنیا کے تمام انسان پیٹ بھر کے روٹی کھائیں گے اور دنیا بھر میں خوشحالی اجائے گی۔
چراغ دین:- (افسردگی اور دکھ سے) جھوٹ بولتے ہو تم، تم لوگوں نے صرف اور صرف اپنے نام و نمود کے لئے NGO's بنائی ہوئی ہیں۔ گاؤں گاؤں، گلی کوچہ اور مختلف پلیٹ فارمز پر موضوعاتی ڈرامے رچا کر یورپی ممالک سے لاکھوں کے فنڈز وصول کرتے ہو تم لوگ اور ہڑپ کر جاتے ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری بنائی ہوئی NGO's کی اکثریت غریبوں کے لئے کچھ بھی تو نہیں کرتیں۔
وجدان:- (حیرت سے) یہ تم کیا کہہ رہے ہو بھائی چراغِ دین؟
چراغ دین:- (دکھ اور افسوس مزید نمایاں ہے) ٹھیک کہہ رہا ہوں میں، امن، محبت، دوستی اور خوشحالی لانے کی ابتدا اپنے گھر

image