2 лет ·перевести

تحریر و آوازحافظ محمد موسٰی بھٹو صاحب*
مضمون:1391(آڈیو پیغام54
----------------------------------------------
*دنیا سے محبت کی بیماری اور اس کے اثرات ونتائج*
موجودہ دور کے انسان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنا دل، دنیا و دولت کو دے چکا ہے اور اس کی ساری حسرتیں اور سارے ارمان دولت ودنیا سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ ہمارا صنعتکار، ہمارا تاجر، ہمارے اہل سیاست، ہمارے افسراں، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے انجنیئر، ہمارے وکیل، ہمارے صحافی، ہمارے ٹیکنیکل ماہر، ہمارے پیر اور ہمارے اہل مذہب سے وابستہ طبقات، ان سب کا ہدف عام طور پر دنیا و دولت بن چکی ہے۔ ان سارے طبقات میں ایسے افراد تلاش بسار کے بعد ملتے ہیں، جو حب مال اور دولت کی پرستش سے بلند ہوچکے ہوں، جہاں تک ضروریات زندگی کی خاطر دولت کے حصول کی جدوجہد ہے تو وہ تو دینی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔
قرآن واحادیث میں دولت کی مطلق نفی نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ دنیا کے اپنے حصہ سے بہرہ ور ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک جگہ دنیا کی رونق کی چیزوں سے استفادہ اہل ایمان کا حق قرار دیا گیا ہے۔
اس طرح کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔
وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا۔ (القصص آیت۔۷۷) اور اللہ نے جو مال تمہیں دیا ہے اس سے اپنے لئے بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ (الاعراف آیت ۳۲) (اللہ نے کھانے پینے اور زینت کی جو چیزیں اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں، ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے حرام کیا، کہدو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لئے ہیں)۔
قرآن میں مال کو زندگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَہَاء أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ قِیَاما۔(النساء ۵) یعنی تم اپنے مال جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے باعث قیام قرار دیا ہے۔ بیوقوفوں کو مت دے ڈالو۔
دوسری جگہ ہے۔
فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْہُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَیْْہِمْ أَمْوَالَہُمْ۔(النساء۶ ) یعنی جب یتیموں کو دیکھو کہ اچھی طرح سمجھ آگئی تو ان کے مال ان کو دیدو۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب بیٹوں نے آکر کہا کہ ونزداد کیل بعیر یعنی ایک اونٹ اناج کا اور زیادہ ملے گا۔ تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام جب بیماری سے شفایاب ہو چکے تو سونے کی ٹڈیاں ان کے پاس سے گزریں، وہ ان کو پکڑنے کے لئے اپنی چادر پھیلانے لگے۔ تاکہ زیادہ ٹڈیاں آئیں، ارشاد ہوا کہ اے ایوب، کیا سیر نہیں ہوا، عرض کی اے پروردگار! تیرے فضل سے کس کا سیر ہوتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اسلام میں جائز ضروریات کے لئے دولت کے حصول کے لئے جدوجہد ضروری ہے، بلکہ یہ ایسا فریضہ ہے، جس میں بہت ساری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، اس سے دوسروں کی محتاجی سے بچنے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اولاد کو احساس کمتری سے بچایا جا سکتا ہے، معاشی تفکرات سے نجات ملتی ہے وغیرہ وغیرہ، اس لئے بعض احادیث میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
حضور ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو فرمایا، تمہارے لئے اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑ کر مرنا اس سے بہتر ہے کہ ان کو ایسی حالت میں چھوڑ جاؤ کہ محتاج ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ابو بکر ؓ کے مال سے زیادہ کسی مال نے نفع نہیں پہنچایا۔
حضرت کعب بن مالک اپنے توبہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، یا رسول اللہ میری توبہ یہ ہے کہ اپنا مال خدا اور اس کے رسول کے لئے خیرات کردوں، ارشاد فرمایا کہ کچھ مال اپنے پاس رہنے دو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
عمرو بن عاص کہتے ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بلایا اور فرمایا کہ کپڑے پہن کر اور ہتھیار سجا کر میرے پاس آؤ، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، ارشاد فرمایا کہ میں تم کو ایک لشکر پر حاکم کرکے بھیجتا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے گا۔ اور غنیمت عطا فرمائے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ جس قدر جی چاہے،مال لے لینا، میں نے عرض کیا، یارسول اللہ، میں کچھ مال کی خواہش سے اسلام نہیں لایا۔ بلکہ اسلام کی محبت سے مسلمان ہوا ہوں، فرمایا، اے عمرو! اچھا مال اچھے فرد کے لئے ہوتا ہے۔
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے خیر وبرکت کی دعا کی اور دعا کے آخری الفاظ یہ تھے۔
اللھم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ۔
(یا اللہ انس کو مال واولاد زیادہ عطا فرما اور اس میں برکت دے)۔

*موجودہ دور کی معاشی جکڑ بندیاں*
قرآن واحادیث میں جس معاشی جدوجہد کی تاکید کی گئی ہے۔ وہ آخرت کی زندگی کے استحضار اور اس کی تیاری کے احساس کے غلبہ، اللہ کے ذکر کے لئے دل کی آمادگی اور دنیا کو مقصود کا درجہ نہ دینے، دوسروں کی محتاجی سے بچنے اور اپنی اولاد کو دوسروں کے رحم وکرم نہ چھوڑنے کے احساس کے ساتھ دی ہے۔
اس کے برعکس موجودہ دور کی ہماری معاشی سرگرمیاں ایسی ہیں،جو آخرت کو فراموش کرکے دنیا ہی کو مقصود بنانے اور ذکر وعبادت واطاعت سے دستبردار ہو کر، خوشحال زندگی کو کامیابی کا معیار سمجھنے پر مشتمل ہیں۔
دور جدید کی سرمایہ دارانہ جکڑ بندیوں سے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی قوم آزاد نہیں، سرمایہ دار کی ان جکڑ بندیوں نے ہمارے مادی اور معاشی احساسات کو نہایت طاقتور اور تیز سے تیز تر کر دیا ہے اور ہمارے وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوگیا ہے۔ قرآن وحدیث اس طرح کی معاشی جدوجہد کی نہ صرف یہ کہ نفی کرتے ہیں،بلکہ وہ اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور دنیا میں اس انہماک کو آخرت کی زندگی کی تباہی کے مترادف قرار دیتے ہے۔
*گزارش* :-
واٹس ایپ کے تمام گروپس میں ایک ہی تحریر شیئر کی جاتی ہے۔شُکریہ
Facebook:
https://www.facebook.com/BedariEmillat/
WhatsApp: Group﴾1﴿
https://chat.whatsapp.com/BGOBv9