مسکان ایک مذہبی بنیاد پرست گروہ کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ مارتی ہے۔ کچھ انسان وہاں موجود ہیں۔ جو مسکان کو پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں۔ یہ وہ مِلک ہے جس کو ہم انتہا پسند کہتے ہیں۔

اب ایک اور ملک ہے جس میں ایک مرفوع القلم شخص پر مقدس اوراق جلانے کا الزام ہے۔ اس کو ہجوم بیہمانہ طریقے سے ڈنڈوں سوٹوں کے ساتھ قتل کر دیتا ہے۔ پتھر سے اس کے سر کو کچلتا ہے اور لاش کو درخت پر ٹانگ دیتا ہے۔ قتل کی اتنی خوفناک ویڈیو ہے کہ اسکو دیکھنے کے لئے ہمت چاہیے۔

وہاں کوئی انسان نہیں جو اس کو بچا کر کسی محفوظ جگہ پر لے جا سکے۔ بچانا تو دور کی بات کسی بندے کی جرات نہیں کہ یہ بھی کہہ سکے کہ یہ ظلم نہ کرو، چھوڑ دو اس کو۔ کیونکہ اس ملک میں کسی کو توہین کے الزام میں قتل کرنا عین ثواب ہے ۔اور جنت میں داخلے کا بغیر روک ٹوک ٹکٹ ہے۔ جنت کس کو نہیں چاہیے؟

یہ ملک چونکہ انتہائی اسلامی ہے، اور اپنے تیئں اسلام کا ٹھیکیدار بھی ہے۔ اور مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا آغاز بھی چونکہ یہیں سے ہونا ہے۔ اوریائی نظریے کے مطابق یہاں سے ہی کالے جھنڈوں والوں نے نکل کر پوری دنیا پر چھا جانا ہے۔ اس لیے یہاں پر احمدیوں کو قتل کرنا، ان کی قبروں کو اکھاڑنا۔ عیسائیوں کی بستی کو آگ لگانا ۔ مندروں کو بھسم کرنا۔ ہندو کمسن لڑکیوں کو مسلمان بنانا۔ عورت کو باندی یا لونڈی سمجھنا۔ مہر کو عورت کے جسم کی اجرت خیال کرنا ۔ لونڈیاں رکھنے کو عین اسلامی کہنا ۔دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو ذمی خیال کرنا۔ ان سے جزیہ لینا۔قتل کی صورت میں ان کی دیت آدھی سمجھنا۔ ان کو کم تر درجے کا انسان خیال کرنا، عین کار ثواب اور اسلامی عمل ہے۔

ہر کچھ عرصے بعد ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو کہ پچھلے واقعے سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ کچھ دن شور مچتا ہے۔ حکمران ٹویٹ کرتا ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (جیسے کوئی ان سے اجازت لے کر یہ کام کررہا ہے)۔ بیانات دیے جاتے ہیں۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ پھر اگلے کسی واقعے تک خاموشی چھا جاتی ہیں۔

پھر کچھ وقت بعد تعفن زدہ ، بدبودار پانی میں ہلچل ہوتی ہے۔ یہ گندا بدبودار غلیظ پانی پھر کوئی انتہائی متعفن چیز اگلتا ہے۔ جسکی بو سے دماغ پھٹتا ہے۔ اور پھر وہ ہی سارا عمل دوبارہ دہرایا جاتا ہے۔

ایک دائرے کا سفر ہے جس کا آغاز ایک انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی واقعے سے ہوتا ہے، کچھ بیانات، کچھ گرفتاریاں، ٹی وی اسکرینوں پر چیخم دھاڑ ، سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن اور پھر ایک لمبی چپ۔ اور پھر کچھ وقت بعد یہ سارا عمل دوبارہ شروع۔

کوئی یہ نہیں سوچتا کہ پانی تعفن زدہ کیوں ہے؟ اس کو کیسے صاف کیا جا سکتا ہے؟ بھئی کنویں میں کتا گر گیا ہے جب تک کتے کو نہیں نکالا جائے گا پانی کیسے صاف ہوگا۔

ضیائی دور سے شروع ہونے والی یہ اسلامی تشریح ہے جو اس ملک کے لئے ایک کینسر بن گئی ہے۔جب تک اس اسلامی تشریح سے جان نہیں چھڑوائی جائے گی یقین کریں ہر کچھ عرصے بعد ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور اگر اس کا علاج نہ کیا گیا تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جس کا دل چاہے گا توہین کا الزام لگائے گا اور بندہ پھڑکا کر جنت میں جانے کا ٹکٹ حاصل کر لے گا۔ اگر زندہ رہا تو غازی بنے گا اور اگر مر گیا تو اس کا مزار بنے گا۔

اس نے تو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اس تشریح کو ایک ڈھال بنایا تھا لیکن یہ اب ایک آکاس بیل بن کر اس ملک کو چمٹ گئی ہے۔ جو کہ آہستہ آہستہ اس ملک کو کھائے جارہی ہے۔معاشرہ جو کہ انتہائی سرعت سے تباہی کی طرف گامزن ہے۔ ڈھلوان کا سفر جو کہ برق رفتاری سے جاری ہے۔

اگر اس سفر کو روکنا ہے۔ اس تباہی سے بچنا ہے تو ایمرجنسی بنیادوں پر معاشرے میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ کتا جو ضیاء دور میں کنویں میں اپنے اقتدار کے لئے گرایا گیا تھا اس کو نکالنا ہوگا۔ اسلام کا چہرہ جو ضیاء نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مسخ کیا تھا، اس کو بحال کرنا ہوگا۔ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو درست کرنا ہوگا۔ منبر کو مولوی سے لے کر اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ بنیاد پرست لٹریچر اور انتہا پسند مولویوں پر پابندی لگانی ہوگی۔

معاشرے کو روشن خیالی کی طرف لے کر جانا ہوگا۔ ان کو جدید دنیا کے انسانی اور اخلاقی تصورات سے آگاہی دینا ہوگی۔ سعودی عرب، ترکی اور امارات جیسے اسلامی ممالک سے کچھ سیکھنا ہوگا۔ اور یہ جلد کرنا ہوگا۔نہیں تو ایسے واقعات کا دورانیہ کم ہوتا جائے گا۔ اور ایک عظیم تباہی مقدر ہے۔ جلدی کیجئیے کہیں دیر نہ ہوجائے۔ ایسا نہ ہو نہ جنوں رہے نہ پری رہے۔

image