ایک غلطی کا احساس
کل مری سانحہ پہ بات کرتے ہوے حکومت اور مری میں موجود فوج کے ساتھ مری واسیوں کی بے حسی کا بھی ذکر کیا جس پہ انھوں نے توجہ دلائی۔ پھر خود بھی ادھر ادھر پتہ کیا۔ یقینا غلطی ہوئی۔ بہت سے پیجز اور والز کی دھائیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ مری کے لوگ فورا ریسکیو ورک کرنے لگ گئے تھے اور بہت سے لوگوں کی مدد بھی کی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مری شہر /بازار کے ہوٹلز نے کرائے ہوشربا کئیے اور وہاں انڈا ڈھائی سو، چائے پانچ سو تک کی بیچی گئی اور استحصال ہوا۔ جیپ ٹیکسی والوں نے بے شرمی کی انتہا کی۔ اور یاد رہے ان میں کئی مری وال بھی تھے۔ انتہائی شرمناک۔ لیکن علی سجاد شاہ درست کہتے ہیں کہ مری فقط ایک بازار ہی تو نہیں۔ ہم فقط اس بازار حسن مری کے روئیے کو پورے مری علاقے کے لوگو کا قصور بھی نہیں بنا سکتے۔
دوستو پہلی بار چار سال کا تھا جب سن چوراسی میں مری گیا۔ تب سے سن ستانوے تک مری ہر سال ہمارا دوسرا گھر تھا۔ والد کی اگست کی چھٹیوں میں ہم وہاں ہوتے تھے۔ تب کا مری ایسا تھا کہ لگتا تھا سکاٹ لینڈ پھر رہے ہیں اور لوگ بھی مددگار۔ پھر مری ڈیویلپمنٹ اور سیاحت کے نام پہ بازار بننے لگا بلکہ بازار حسن بننے لگا۔ سن ستانوے میں میرے والد نے اعلان کیا کہ اب مری آنے کے قابل نہیں رہا اور ہم دیگر مقامات کی جانب جانے لگے۔ ہوٹل مافیا اور دیگر مافیاز نے مری کا وہ حال کیا کہ آج انکی کی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے ہر گالی اہلیان مری کو پڑتی ہے۔
مری والوں کو سوچنا چاہیے کہ انکی شناخت پہ ڈاکا ڈال کر انکو سارے ملک میں بدنام کیا جا رہا ہے اور اگر انھوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نا لئیے تو باقی پاکستان میں خود کو مری کا بتانے کی ہمت نا کر سکیں گے۔
بہرحال، مصیبت میں پھنسے لوگو کی مدد کیلئیے اصل اہلیان مری اور مری ڈیولپمنٹ فورم جیسے پیجز اور انکی ٹیم کا شکریہ۔