2 лет ·перевести

زکات، صدقے اور خیرات کے پیسے، آوارہ جانوروں جیسے بلیوں اور کتوں وغیرہ کی خوراک پر لگانے کے سلسلے میں دریافت کیا گیا ہے۔
بظاہر زکات کے مصارف متعین ہیں، اسے انھیں میں ہی استعمال کیا جانا چاہیے؛ ہاں "فی سبیل اللہ" میں وسعت ہے تاہم اس میں فقہا کی اجازت درکار ہوگی۔
جہاں تک مستحب صدقے اور خیرات کی بات ہے تو ان پیسوں کا ایسے کاموں میں استعمال کرنا، جہاں فضول خرچی اور پیسے ضائع کرنے جیسا عنوان صدق نہ آتا ہو، بظاہر مشکل نہیں ہے۔
عصر حاضر میں جانوروں کے حقوق، ان کی دیکھ بھال اور ان کے علاج معالجے پر دنیا بھر میں کام جاری ہے نیز ان پر علمی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔ ان کاموں پر صدقے اور خیرات کے پیسے لگانا، اب اسراف اور فضول خرچی کے ذیل میں نہیں آتا۔
ملحوظ رہے کہ آوارہ جانوروں کے سلسلے میں، جنگلی جانوروں کے لیے ریاستی سطح پر قائم محکموں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی این جی اوز سے مشاورت کرنی چاہیے کہ کس علاقے میں کس جانور کی مقامی سطح پر دیکھ بھال مناسب ہے اور کسے وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کیا جانا چاہیے جیسے سانپ، آوارہ کتا، بھیڑیا اور ایسے نقصان دہ جانور، انھیں مارنے یا رہائشی علاقوں میں ہی پالنے کے بجائے، محفوظ علاقوں میں چھوڑنا مفید ہوگا۔
امجد عباس