وہ پوسٹ جس پہ مارک زکر برگ کا بھٹّا بیٹھا تھا


شرفامیں ایک وصف بدرجہ اتم پایا جا تا ہے کہ وہ شریراور رومانی ایڈونچر کے شائق لوگوں کی جانب جلد مائل ہو جاتے ہیں تا کہ اپنے مزاج کے اس تشنہ پہلو کی تشفی کرسکیں ۔ چناں چہ الیاس صاحب کو ایک کولیگ اور دوست جسے شکاری کہا جا تا تھا ، اور چند دوسرے دفتری ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان میں اکٹھے رہنے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں الیاس صاحب کو مولوی کے نام سے پکارا جا تا تھا ۔ شکاری کی زندگی کا اولین مقصد آسان دست رس میں آ جانے والی خواتین سے راہ ورسم بڑھانا تھا ۔ وہ اپنے ہدف کے بارے میں کم و بیش درست اندازہ کر لیتا تھا ۔ ایک بیش قیمت وصف اور بھی تھا جوقرون اولی کے قاضیوں میں پایا جا تا تھا ، سبھی کو برابر بلا امتیاز جانتا ، رنگ ونسل ، امارت و غر بت ، عمر اور دیگر عوامل کو قطعی خاطر میں نہ لاتا۔سبھی کو ایک نظر سے دیکھتا اور رجوع کرنے میں دریغ نہ کرتا ۔ چندایک بارنشانہ خطا بھی ہوجاتا ، چناں چہ پٹیوں میں لپٹاٹوٹی ہڈیوں اور سوجے جسم کے ساتھ کسی اسپتال میں بغرض علاج پایا جا تا ۔ اونچے مقاصد کی راہ میں آنے والی معمولی رکاوٹوں کو وہ قدرت کا امتحان جانتا اور پھر سے اپنے عزائم کے حصول کے لیے نئے حوصلے سے رواں ہو جا تا ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ دفتر کے راستے میں ریلوے لائن کے پار اور سول لائز کے بیچ وسیع رقبے پہ فصل کاشت ہوتی جس کے بیچ میں چندفٹ رستہ پیدل چلنے والوں کے لیے چھوڑا گیا تھا۔وہیں شکاری کا سامنا سفید یونی فارم پہنے ایک دائی سے ہو جا تا تھا ۔ ایک روز اس نے دائی کا راستہ کچھ ایسے روکا کہ اس کی ہنسی نکل گئی ۔ چناں چہ بات آگے بڑھ گئی ۔ پہلی ملاقات کے بعد وہ واپس ہوا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔ جب وجہ پوچھی گئی تو شکاری نے بتایا کہ دائی کا تکیہ کلام’بسم اللہ ‘ تھا ۔ چناں چہ ہر جنبش پر بے اختیار بول دیتی ’ بسم اللہ ۔ ‘ ‘ اس تکیۂ کلام سے اٹھتا غبار بارش سے بیٹھتی دھول کی طرح بیٹھ جا تا ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا جاتا تھا تو سنجیدگی سے بولا ’ ’ گناہ گار ضرور ہوں ، کافرنہیں ۔

image