دیکھ کے تیری جہد مسلسل
چھٹ گئے خود ہی دکھ کے بادل
کیف احمد صدیقی
What a marvellously focused he was !
Series name : For Life
Source : Netflix
IMDb : 7.7/10
کسی کی زندگی کے ستائیس سال کا سفر
قدرت کہیں یا قسمت مگر یہ لکھا ہوا بھی نا بندے کو کِن کن راستوں ، پگڈنڈیوں سے چلاتا ہوا “ لکھے ہوئے “ تک پہنچاتا ہے۔
اچھا بھلا کلب کا مالک ہائی سکول تک پڑھا ہوا ایک دن ڈرگ فروشی کے الزام میں دھر لیا گیا اور پھر آنا فانا اس کا ٹرائل ہوا اور عمر قید کی سزا سُنا کر بدنامِ زمانہ نیویارک اسٹیٹ کی
Bellmore prison
میں قید کر دیا گیا۔
وہ بے قصور تھا ۔ اُس نے عام ملزموں کی طرح ججمینٹ آنے کے بعد
Plea
نہیں لی ۔ بلکہ وہ مُصر رہا کہ وہ بے گناہ ہے اور اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے ۔
تعلیم فقط ہائی سکول اور پھر جیل میں رہتے ہوئے پیرا لیگل ہوا ، لاء پڑھا اور آخر اپنے کیس کو دوبارہ کھلوا کر باہر نکلا ۔ اور باہر نکل کر اسی کورٹ میں وکالت کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے نو سال تک خود کو ڈیفینڈ کیا اور آخر کار ۱۹۸۹ء سے جاری جدوجہد ۲۰۱۷ میں اختتام پذیر ہوئی جب اسی کورٹ نے جس نے عمر قید کی سزا سنائی تھی اسے وکالت کا لائسنس ایشو کیا۔
اور امریکن تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ جسے عمر قید کی سزا سنائی گئی وہ بالکل بے قصور قرار دے کر بری کر دیا گیا۔
دو ہزار بیس میں نیویارک اسٹیٹ کے اٹارنی جنرل کے الیکشن میں وہ امیدوار تھا۔
وہ پوسٹ جس پہ مارک زکر برگ کا بھٹّا بیٹھا تھا
شرفامیں ایک وصف بدرجہ اتم پایا جا تا ہے کہ وہ شریراور رومانی ایڈونچر کے شائق لوگوں کی جانب جلد مائل ہو جاتے ہیں تا کہ اپنے مزاج کے اس تشنہ پہلو کی تشفی کرسکیں ۔ چناں چہ الیاس صاحب کو ایک کولیگ اور دوست جسے شکاری کہا جا تا تھا ، اور چند دوسرے دفتری ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان میں اکٹھے رہنے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں الیاس صاحب کو مولوی کے نام سے پکارا جا تا تھا ۔ شکاری کی زندگی کا اولین مقصد آسان دست رس میں آ جانے والی خواتین سے راہ ورسم بڑھانا تھا ۔ وہ اپنے ہدف کے بارے میں کم و بیش درست اندازہ کر لیتا تھا ۔ ایک بیش قیمت وصف اور بھی تھا جوقرون اولی کے قاضیوں میں پایا جا تا تھا ، سبھی کو برابر بلا امتیاز جانتا ، رنگ ونسل ، امارت و غر بت ، عمر اور دیگر عوامل کو قطعی خاطر میں نہ لاتا۔سبھی کو ایک نظر سے دیکھتا اور رجوع کرنے میں دریغ نہ کرتا ۔ چندایک بارنشانہ خطا بھی ہوجاتا ، چناں چہ پٹیوں میں لپٹاٹوٹی ہڈیوں اور سوجے جسم کے ساتھ کسی اسپتال میں بغرض علاج پایا جا تا ۔ اونچے مقاصد کی راہ میں آنے والی معمولی رکاوٹوں کو وہ قدرت کا امتحان جانتا اور پھر سے اپنے عزائم کے حصول کے لیے نئے حوصلے سے رواں ہو جا تا ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ دفتر کے راستے میں ریلوے لائن کے پار اور سول لائز کے بیچ وسیع رقبے پہ فصل کاشت ہوتی جس کے بیچ میں چندفٹ رستہ پیدل چلنے والوں کے لیے چھوڑا گیا تھا۔وہیں شکاری کا سامنا سفید یونی فارم پہنے ایک دائی سے ہو جا تا تھا ۔ ایک روز اس نے دائی کا راستہ کچھ ایسے روکا کہ اس کی ہنسی نکل گئی ۔ چناں چہ بات آگے بڑھ گئی ۔ پہلی ملاقات کے بعد وہ واپس ہوا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔ جب وجہ پوچھی گئی تو شکاری نے بتایا کہ دائی کا تکیہ کلام’بسم اللہ ‘ تھا ۔ چناں چہ ہر جنبش پر بے اختیار بول دیتی ’ بسم اللہ ۔ ‘ ‘ اس تکیۂ کلام سے اٹھتا غبار بارش سے بیٹھتی دھول کی طرح بیٹھ جا تا ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا جاتا تھا تو سنجیدگی سے بولا ’ ’ گناہ گار ضرور ہوں ، کافرنہیں ۔
۲۰۲۱ میں فیسبک نے ہمارے ساتھ سوتیلوں سا سلوک رکھا ۔ سینکڑوں پرانے پرانے اکاؤنٹس کسی ذرا سی بات پہ اُڑا دیے گیے ۔ اور بے حسی کی حد یہ ہے کہ کوئی کمپلین کوئی ریویو کرنے کی آپشن تک بھی نہیں دیتے ۔ ایسے میں ہمارے مِتر اور بے چین روح انعام رانا ایک نئی ایپ کا ڈول ڈالا اور “ facelore“ کے نام سے ایک ایپ بنا ڈالی ۔ اینڈرائیڈ ورژن آ چکا ہے اور جلد ہی آئی فون ورژن بھی متعارف کروا دیا جائے گا۔ ٹھیک ہے فیسبک کے ذریعے ہمیں گلوبل ایکسیس ملتی ہے لیکن ذرا ذرا اپنی اپنی فرینڈ لسٹ میں ہم جھانک لیں تو کتنے کو گلوبل فرینڈز ہیں ہماری کانٹینٹ لسٹ میں ؟
میرا خود کا سات آٹھ سال پرانا اکاؤنٹ پرسوں اُڑا دیا گیا ?۔
آئیے فیس لور پہ اکاؤنٹ بنائیں اور اپنے اکاؤنٹس ڈئٹا میموریز کو سیف کریں