مجھے آج بھی ہماری پہلی ملاقات یاد ہے۔ وہ واقعی اپنی تصویر سے حسین تھی۔ کیا کیا خوبانِ جہان نہ دیکھی ہوں گی میری آنکھوں نے۔ لیکن اس کی آنکھیں دیکھ کے گویا میں hypnotize ہو گیا تھا۔ اس بات کا احساس شاید اسے بھی تھا کہ اس کی آنکھیں محض آنکھیں نہیں، کسی اور کائنات کا portal تھیں۔
وہ نہ جانے کیا کہتی رہی۔ میں نہ جانے کیا سنتا رہا لیکن دونوں ہنستے رہے۔ میرا مرکز، میرا محور صرف وہ آنکھیں تھیں۔
بڑی دیر بعد میں نے اس کی مقناطیسی آنکھوں سے پہلی بار نظریں ہٹائیں۔
وہ میرے حصے کا پیزا اور کوک بھی ہڑپ کر چکی تھی۔ محبت میں یہ پہلا دھوکہ تھا جو اُس بیوفا نے مُجھے دِیا۔
منقول
مجھے آج بھی ہماری پہلی ملاقات یاد ہے۔ وہ واقعی اپنی تصویر سے حسین تھی۔ کیا کیا خوبانِ جہان نہ دیکھی ہوں گی میری آنکھوں نے۔ لیکن اس کی آنکھیں دیکھ کے گویا میں hypnotize ہو گیا تھا۔ اس بات کا احساس شاید اسے بھی تھا کہ اس کی آنکھیں محض آنکھیں نہیں، کسی اور کائنات کا portal تھیں۔
وہ نہ جانے کیا کہتی رہی۔ میں نہ جانے کیا سنتا رہا لیکن دونوں ہنستے رہے۔ میرا مرکز، میرا محور صرف وہ آنکھیں تھیں۔
بڑی دیر بعد میں نے اس کی مقناطیسی آنکھوں سے پہلی بار نظریں ہٹائیں۔
وہ میرے حصے کا پیزا اور کوک بھی ہڑپ کر چکی تھی۔ محبت میں یہ پہلا دھوکہ تھا جو اُس بیوفا نے مُجھے دِیا۔
منقول
نظر میں بھی نہیں اب گُھومتا پیمانہ برسوں سے
قسم کھانے کو بھی دیکھا نہیں میخانہ برسوں سے
نہ پینے کو مِلی اِک گُھونٹ، بے باکانہ برسوں سے
نہیں اب کار فرما جُراَتِ رِندانہ برسوں سے
سرِ صحرا جدھر دیکُھوں اُداسی ہی اُداسی ہے
اِدھر آیا نہیں شاید کوئی دیوانہ برسوں سے
کبھی خَلوت، کبھی جَلوت، کبھی ہنسنا، کبھی رونا
مرتَّب کر رہے ہیں ہم بھی اِک افسانہ برسوں سے
یہ تکلیفِ قدم بوسی، یہ اندازِ پذیرائی
ہمارا منتظر تھا غالبًا ویرانہ برسوں سے
میسّر آئی کیا ہم کو گدائی آپ کے دَر کی
گزرتی ہے ہماری زندگی شاہانہ برسوں سے
وہ اپنی ذات کے صحرا میں شاید تیرا جویا ہے
نظر آیا نہیں احباب کو دیوانہ برسوں سے
نصیرؔ اب اپنی آنکھیں اُٹھ نہیں سکتیں کِسی جانب
مِرے پیشِ نظر ہے اِک تجلّی خانہ برسوں سے ۔
فرمُدۂ الشیخ پیرسیّدنصیرالدّین نصیرؔ جیلانی،
رحمتُ اللّٰه تعالٰی علیہ، گولڑہ شریف